122 views
السلام علیکم: ہم نے سنا کہ مسجد میں غیرمسلم کا داخلہ ممنوع ہے۔ توپھر غیرمسلم سے مسجد میں نقش و نگار بنوانا ، یا فرنیچر کا کام کرانا یا مسجد کی صفائی وغیرہ اس سے کرانا کیسے درست ہوگا؟ کیونکہ وہ ناپاک ہیں اور ناپاک آدمی مسجد میں داخل نہیں ہوسکتاہے۔ اس کا مجھے جواب چاہئے  اورقرآنی آیت انما المشرکون نجس کا صحیح مطلب کیا ہے؟   
راشد نعیم
asked Oct 27, 2021 in اسلامی عقائد by Rahimuddin

1 Answer

Ref. No. 1672/43-1291

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ کسی غیرمسلم سے مسجد کے فرنیچر کا کام کرانا، اور مسجد کی صفائی وغیرہ کرانا درست  اور جائز ہے۔  یہی امام ابوحنیفہ کا مسلک ہے۔ قرآنی آیت میں جو مشرکین کو مسجد حرام سے روک دیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین کو آئندہ سال سے ان کے مشرکانہ طرز پر حج وعمرہ  کرنے کی اجازت نہیں ہوگی،  اور دلیل یہ ہے کہ جس وقت موسم حج میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے ذریعہ اعلان برائت کردیا گیا تو اس میں اعلان اسی کا تھا کہ لایحجن بعد العام مشرک ، جس میں ظاہر کردیاگیاتھا کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا، یعنی حج و عمرہ کی ممانعت ہے، کسی ضرورت سے باجازت امیر المومنین داخل ہوسکتے ہیں، وفد ثقیف کا واقعہ اس کا شاہد ہے کہ فتح مکہ کے بعد جب ان کا ایک وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہواتو آپﷺ نے ان کو مسجد میں ٹھہرایاحالانکہ یہ لوگ اس وقت کافر تھے، صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ نجس قوم ہے، تو آپ نے فرمایاکہ مسجد کی زمین پر ان کی نجاست کا کوئی اثر نہیں پڑتا-جصاص۔  (مستفاد از معارف القرآن ج4 ص355 تفسیر سورہ توبہ آیت 28)

قال: ولا بأس بأن يدخل أهل الذمة المسجد الحرام وقال الشافعي - رَحِمَهُ اللَّهُ -: يكره ذلك. وقال مالك - رَحِمَهُ اللَّهُ -: يكره في كل مسجد، للشافعي - رَحِمَهُ اللَّهُ - قَوْله تَعَالَى: {إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا} [التوبة: 28] ولأن الكافر لا يخلو عن جنابة؛ لأنه لا يغتسل اغتسالا يخرجه عنها، والجنب يجنب المسجد، وبهذا يحتج مالك، والتعليل بالنجاسة عام فينتظم المساجد كلها. ولنا ما روي أن النبي - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - أنزل وفد ثقيف في مسجده وهم كفار ولأن الخبث في اعتقادهم فلا يؤدي إلى تلويث المسجد، والآية محمولة على الحضور استيلاء واستعلاء،أو طائفين عراة كما كانت عادتهم في الجاهلية. (البنایۃشرح الھدایۃ، باب دخول اھل الذمۃ المسجد الحرام 12/238-240)

ولا یکرہ عندنا دخول الذمي المسجد الحرام، وکرہہ الشافعي لقولہ تعالی: ”إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلَا یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہَذَا“، ولأن الکافر لا یخلو عن جنابة․ وأُجیب بأنہ محمول علی منعہم أن یدخلوہ طائفین عراةً، وأو مستولین، وعلی أہل الإسلام مستعلین، وبأنّ النجاسة محمولة علی خبث عقائدہم، وکرہہ مالک في کل مسجد اعتبارًا بالمسجد الحرام لعموم العلة وہي النجاسة․ ولنا: ما في ”سنن أبی داوٴد“ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِی الْعَاصِ، أَنَّ وَفْدَ ثَقِیفٍ لَمَّا قَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَنْزَلَہُمُ الْمَسْجِدَ لِیَکُونَ أَرَقَّ لِقُلُوبِہِمْ، فَاشْتَرَطُوا عَلَیْہِ أَنْ لَا یُحْشَرُوا، وَلَا یُعْشَرُوا، وَلَا یُجَبَّوْا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَکُمْ أَنْ لَا تُحْشَرُوا، وَلَا تُعْشَرُوا، وَلَا خَیْرَ فِی دِینٍ لَیْسَ فِیہِ رُکُوعٌ․ والتجبیة بالجیم والموحدة وضع الیدین علی الرکبتین․ وفي ”مراسلة“ عن الحسن أن وفدَ ثقیف أتوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضرب لہم قبة فی موٴخر المسجد لینظروا صلاة المسلمین، فقیل لہ: یا رسول اللہ أتنزلہم في المسجد وہم مشرکون؟ قال: إن الأرض لا تتنجس بابن آدم (۔شرح الوقایة لعلي الحنفي: ۵/ ۱۸۷)

وفي الحاوي لا بأس أن یدخلَ الکافر وأہل الذمة المسجد الحرام وبیت المقدس وسائر المساجد لمصالح المسجد وغیرہا من المہمّات (البحر الرائق شرح کنز الدقائق) (قولہ: حتی الکافر) اعترض بأن الکافر لا یمنع من دخول المسجد حتی المسجد الحرام، فلا وجہ لجعلہ غایة ہنا، قلت: في البحر عن الحاوي: ولا بأس أن یدخل الکافر وأہل الذمة المسجد الحرام وبیت المقدس وسائر المساجد لمصالح المسجد وغیرہا من المہمات إھ ومفہومہ أن في دخولہ لغیر مہمة بأسا وبہ یتجہ ماہنا فافہم․ (رد المحتار: ۶/ ۵۷۵)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Nov 1, 2021 by Darul Ifta
...