57 views
نماز میں قعدہ اولی و قعدہ اخیرہ (تشھد) میں دونوں دونوں ہاتھوں کی انگلیاں سیدھی ہوتی ہیں، کچھ لوگ اشھد ان لاالہ پر شہادت کی انگلی اٹھاتے ہیں اور باقی انگلیاں اپنی جگہ پر رہتی ہیں۔ اور کچھ لوگ شہادت کی انگلی اٹھاتے ہیں اور باقی تین انگلیاں اور انگوٹھا کی مٹھی باندھ لیتے ہیں۔ سنت طریقہ کیا ہے؟
asked Nov 5, 2021 in نماز / جمعہ و عیدین by Sayeed Ahamed khan

1 Answer

Ref. No. 1685/43-1328

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قعدہ اولی و اخیرہ میں  شہادت سے پہلے ،  آخر کی دو چھوٹی انگلیوں کو بند کرلیا جائے ، بیچ والی انگلی اور انگوٹھے سے  حلقہ بنالیا جائے اور ”لا الہ“ پر شہادت کی انگلی اٹھائی جائے اور الا اللہ“ پر گرادی جائے اور انگلیوں کا حلقہ سلام تک باقی رکھا جائے۔ یہ سنت طریقہ ہے، سنن ابی داؤد و ابن ماجہ میں موجود  ہے۔ اعلاء السنن میں تفصیلی بحث موجود ہے:

عن عاصم بن كُليب، عن أبيه عن وائل بن حُجر قال: قلتُ: لأنظُرَنَّ إلى صلاةِ رسولِ الله- صلى الله عليه وسلم - كيف يُصلي، قال: فقام رسولُ الله- صلى الله عليه وسلم -، فاستَقبَلَ القِبلَةَ، فكبَّر فرفع يَدَيهِ حتى حاذتا أُذُنَيهِ، ثم أخذ شِمالَه بيمينه، فلمَّا أراد أن يركعَ رَفَعَهما مثلَ ذلك، ثم وضع يَدَيهِ على رُكبَتَيهِ، فلفَا رفعَ رأسَه من الركوع رَفَعَهما مِثلَ ذلك، فلمَّا سجدَ وضعَ رأسَه بذلك المَنزِلِ من بين يَدَيهِ، ثم جلسَ فافتَرَشَ رِجلَه اليُسرى ووضعَ يَدَه اليُسرى على فَخِذِه اليُسرى، وحَد مِرفَقِهِ الأيمَنِ على فَخِذِه اليُمنى، وقبضَ ثِنتَينِ وحلَّق حَلقةً، ورأيته يقول: هكذا، وحلَّقَ بِشرٌ الإبهامَ والوسطى، وأشارَ بالسبابة (سنن ابی داؤد ، باب رفع الیدین 2/48 الرقم 726). عن عاصم بن کلیب الجرمی عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَقَدْ وَضَعَ يَدَهُ اليُسْرَى عَلَى فَخِذِهِ اليُسْرَى، وَوَضَعَ يَدَهُ اليُمْنَى عَلَى فَخِذِهِ اليُمْنَى وَقَبَضَ أَصَابِعَهُ وَبَسَطَ السَّبَّابَةَ، وَهُوَ يَقُولُ: «يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ، ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ»: (سنن الترمذی، 5/573 رقم الحدیث 3587)

الصحیح أنہ یشیر بمسبحتہ وحدہا، یرفعہا عند النفی ویضعہا عند الإثبات وفي الشامیة: الثانی بسط الأصابع إلی حین الشہادة فیعقد عندہا ویرفع السبابة عند النفي ویضعہا عند الإثبات وہذا ما اعتمدہ المتأخرون لثبوتہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم بالأحادیث الصحیحة ولصحة نقلہ عن أئمتنا الثلاثة الخ (درمختار مع الشامی، زکریا: ۲/۲۱۸) "يرفعها الخ" وعند الشافعية يرفعها لذا بلغ الهمزة من قوله إلا الله ويكون قصده بها التوحيد والإخلاص عند كلمة الإثبات والدليل للجانبين في المطولات قوله: "وأشرنا إلى أنه لا يعقد شيئا من أصابعه وقيل الخ" صنيعه يقتضي ضعف العقد وليس كذلك إذ قد صرح في النهر بترجيحه وأنه قول كثير من مشايخنا قال وعليه الفتوى كما في عامة الفتاوى وكيفيته أن يعقد الخنصر والتي تليها محلقا بالوسطى والإبهام (حاشیۃ الطحطاوی علی المراقی، فصل فی بیان سننھا 1/270) اصابعہ ای بسط اصابعہ فی اطلاق البسط ایماء الی انہ لایشیر بالسبابۃ عندالشھادتین عاقدا الخنصر والتی تلیھا محلقا الوسطی والابھام وعدم الاشارۃ خلاف الروایۃ والدرایۃ ففی مسلم کان النبی ﷺ یشیر باصبعہ التی تلی الابھام قال محمد ونحن نصنع بصنعہ ﷺ وفی المجتبی لما اتفقت الروایات وعلم عن اصھابنا جمیعا کونھا سنۃ وکذا عن الکوفیین والمدنیین وکثرت الاخباروالآثار کان العمل بھا اولی وھو الاصح ثم قال الحلوانی یقیم الاصابع عندالمنفی ویضعہ عندالاثبات واختلف فی وضع الید الیمنی فعن ابی یوسف انہ یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والابھام وفی در البحار المفتی بہ عندنا انہ یشیر باسطا اصابعہ کلھا وجاء فی الاخبار وضع الیمنی علی صورۃ عقد ثلاثۃ وخمسین ایضا فتح وعینی وغیرہ (کنزالدقائق، کیفیۃ اداء الصلوۃ، حاشیۃ 6، ص26)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Nov 18, 2021 by Darul Ifta
...