126 views
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
مسئلہ یہ ہے کہ میں نے خضر بن انور نامی شخص سے بتاریخ1/ /1/1427 ه‍.ق میں سترہ 17 لاکھ تومن (ایرانی کرنسی) قرض لیا تھا، اب سنہ 1443 ھ۔ق، تقریبا سولہ 16 سال بعد، میں قرض ادا کرنا جاہتاہوں اور آج کل کے تومن (ایرانی کرنسی) کی قیمت اُس وقت کے مقابلے میں بہت کم ہے، تو میں یہ قرض اُس وقت کے تومن کی قیمت سے ادا کروں یا اِس وقت کے تومن کی قیمت سے؟
براه کرم مسئلہ کی مکمل وضاحت کتب فتوی کی روشنی میں وضاحت فرمائیں!
اس مسئلہ کا دارالافتاء دارالعلوم قاسمیہ بلخ/ افغانستان سے اس طرح جواب دیا گیا ہے، کیا یہ صحیح ہے؟: مذکورہ مسئلہ میں قرض کی ادائیگی تومن(کرنسی) کی موجودہ قیمت سے کی جائے، اور اُس وقت کے تومن کی قیمت جو زیادہ تھی، اسکا اعتبار نہیں کیا جائیگا۔
مندرجہ ذیل عبارات سے استدلال کیا گیاہے۔
asked Nov 11, 2021 in ربوٰ وسود/انشورنس by Hosamuddin ebady

1 Answer

Ref. No. 1694/43-1329

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ قرض کی ادائیگی میں اسی کرنسی کا اعتبار ہوگا جو کرنسی قرض میں دی تھی۔ جب دینے والے نے قرض میں ایرانی کرنسی دی تھی تو آپ بھی ایرانی کرنسی  ہی واپس کردیں چاہے اس کی موجودہ حیثیت کم ہو یا زیادہ۔ البتہ اگر قرض کی ادائیگی کسی دوسری کرنسی سے کررہا ہے تو اس میں کرنسی کی  موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا۔ اور قرض کی وصولی کے وقت مارکیٹ میں اس کرنسی کی جو قیمت ہوگی وہ اداکرنی ہوگی۔

هذا إذا كسدت وانقطعت أما إذا غلت قيمتها أو انتقضت فالبيع على حاله ولا يتخير المشتري، ويطالب بالنقد بذلك العيار الذي كان وقت البيع كذا في فتح القدير. وفي البزازية عن المنتقى غلت الفلوس أو رخصت فعند الإمام الأول والثاني، أولا ليس عليه غيرها، وقال: الثاني ثانيا عليه قيمتها من الدراهم يوم البيع والقبض وعليه الفتوى، وهكذا في الذخيرة - - -  - - - - بقي هنا شيء وهو أنا قدمنا أنه على قول أبي يوسف المفتى به: لا فرق بين الكساد والانقطاع والرخص والغلاء في أنه تجب قيمتها يوم وقع البيع أو القرض إذا كانت فلوسا أو غالبة الغش، وإن كان فضة خالصة أو مغلوبة الغش تجب قيمتها من الذهب، يوم البيع على ما قاله الشارح، أو مثلها على ما بحثناه وهذا إذا اشترى بالريال أو الذهب، مما يراد نفسه، أما إذا اشترى بالقروش المراد بها ما يعم الكل كما قررناه، ثم رخص بعض أنواع العملة أو كلها واختلفت في الرخص، كما وقع مرارا في زماننا ففيه اشتباه فإنها إذا كانت غالبة الغش، وقلنا: تجب قيمتها يوم البيع، فهنا لا يمكن ذلك؛ لأنه ليس المراد بالقروش نوعا معينا من العملة حتى نوجب قيمته. (شامی، مطلب مھم فی احکام النقود اذاکسدت 4/537)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Nov 18, 2021 by Darul Ifta
...