Ref. No. 1687/43-1332
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذی کم ہو یا زیادہ اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتاہے، اگر شرمگاہ پر نجاست پھیلی ہے تو اس کا دھونا ضروری ہے، اور اگر شرمگاہ پر نہیں پھیلی، اس کو کپڑے سے پونچھ لیا تو شرمگاہ کا دھونا یعنی استنجا کرناضروری نہیں ہے۔ وضو کرکے نماز پڑھ سکتاہے۔ اگر کپڑے میں نجاست لگی ہے تو ایک درہم کی مقدار سے کم ہو تو اس میں نماز ہوجائے گی ، اس کا دھونا ضروری نہیں ہے، گرچہ جان بوجھ کر ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ پیشاب کا قطرہ ایک درہم سے کم کپڑے پر لگاہو تو وہ کپڑا پاک شمار ہوگا اور ا س میں نماز درست ہوجائے گی، اور اگر ایک درہم سے زیادہ پھیلاہوا ہے تو کپڑا ناپاک ہے اس کو پہن کر نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔
(الفصل الخامس في نواقض الوضوء) منها ما يخرج من السبيلين من البول والغائط والريح الخارجة من الدبر والودي والمذي والمني والدودة والحصاة، الغائط يوجب الوضوء قل أو كثر وكذلك البول والريح الخارجة من الدبر. كذا في المحيط. (الھندیۃ، الفصل الخامس في نواقض الوضوء 1/9) ، أن النبي - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قال في المذي: "يغسل ذكره، ويتوضأ" وفي رواية: "يتوضأ وضوء الصلاة» رواه البخاري ومسلم. وعن ابن مسعود، وابن عباس - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ - قالا. في الودي الوضوء، رواه البيهقي، والمذي والودي غير معتادين، وقد وجب فيهما الوضوء ولأنه خارج من السبيل فينقض كالريح والغائط ولأنه إذا وجب الوضوء بالمعتادة، والذي تعم به البلوى بغيره أولى. (البنایۃ، ماخرج من السبیلین من نواقض الوضوء 1/258)
المانع في الغليظة ما زاد على الدرهم قياسا على النجاسة المغلظة، كذا في البحر (شامی، مطلب فی ستر العورۃ 1/409) النجاسة إن كانت غليظة وهي أكثر من قدر الدرهم فغسلها فريضة والصلاة بها باطلة وإن كانت مقدار درهم فغسلها واجب والصلاة معها جائزة وإن كانت أقل من الدرهم فغسلها سنة وإن كانت خفيفة فإنها لا تمنع جواز الصلاة حتى تفحش. كذا في المضمرات. (الھندیۃ، الفصل الاول فی الطھارۃ وسترالعورۃ 1/58)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند