Ref. No. 1716/43-1391
الجواب وباللہ التوفیق:
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ چار مہینے یا اس سے زیادہ کا حمل اگر ساقط ہوجائے تواس کے بعد آنے والا خون نفاس شمار ہوگا، یہی حکم ہے اگر چار مہینہ مکمل ہونے میں کچھ دن کم ہوں اور اعضاء مکمل ہوچکے ہوں اور نفخ روح ہوچکاہو تو بھی اسقاط کے بعد آنےوالا خون نفاس ہوگا۔ اور اگر تین ماہ یا اس سے کم کا حمل ساقط ہوا جبکہ بچہ کی تخلیق مکمل نہیں ہوئی تھی تو اب یہ نفاس کا خون شمار نہیں ہوگا، بلکہ اگر یہ خون عورت کی حیض کی جو عادت تھی ان دنوں میں شروع ہوا تو اب یہ حیض کا خون شمار کیا جائے گا۔ اور اگر عادت کے دنوں میں شروع ہوا لیکن دس دن سے تجاوز کرگیا تو اب یہ استحاضہ کا خون ہوگا، اسی طرح اگر خون شروع ہو کر تین سے پہلے بند ہوگیا تو بھی استحاضۃ کا خون ہوگا۔ عورت حیض و نفاس کے ایام میں نماز نہیں پڑھے گی، اور بعد میں اس کی قضاء بھی نہیں کرے گی، البتہ استحاضہ کے دنوں میں عورت ہر نماز کے وقت وضو کرکے نماز ادا کرے گی۔
نعم نقل بعضہم أنہ اتفق العلماء علی أن نفخ الروح لا یکون إلاّ بعد أربعة أشہر أي عقبہا کما صرّح بہ جماعة--- ولا ینافي ذلک ظہور الخلق قبل ذلک؛ لأن نفخ الروح إنّما یکون بعد الخلق، وتمام الکلام في ذلک مبسوط في شرح الحدیث الرابع من الأربعین النوویة (شامی،۱/۵۰۱، مطلب في أحوال السقط وأحکامہ، ط: زکریا)--- والسقط إن ظہر بعضہ فہو ولد تصیر بہ نفساء والأمة أم الولد---؛ لأنہ ولد لکنہ ناقص الخلقة ونقصان الخلقة لا یمنع أحکام الولادة، وفي قولِ صاحب التبیین: لا یستبین خلقہ إلا في مأة وعشرین یومًا، نظر، تأمل․ (مجمع الأنہر مع ملتقی الأبحر، ۱/ ۸۴، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) دیکھیں: (امداد الفتاوی: ۱/۱۰۱، سوال: ۷۶، ۷۷، ۷۸، ط: کراچی۔ احسن الفتاوی: ۱۰/ ۱۷۴، ط: زکریا)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند