65 views
بسم اللہ الرحمن الرحیم
   السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان شرع متین   درج ذیل مسئلہ کے بارے میں:

   
ایک شخص ہے جس نے اپنا نکاح خود پڑھایا اور کہتا ہے فلاں لڑکی سے نکاح کرتا ہوں اس کے گواہ وہاں موجود ہے لیکن وہاں لڑکی کی جانب سے  نہ کوئی گواہ موجود ہے نہ اس کا سرپرست اور نہ خود لڑکی اس مجلس میں  موجود ہے نہ اس نے اپنا کوئی وکیل متعین کیا اور نہ نکاح کی اجازت دیتی تھی لیکن بالجبر اور زبردستی اجازت لی گئ ۔۔۔۔۔ تو کیا یہ نکاح درست ہے ؟؟؟؟؟یا زنا ہوا؟؟؟؟
اور 5000 متعینہ مہر کی ادائیگی کے بغیر ہی طلاق دے دی۔

 مسئلہ کی وضاحت فرما کر عند اللہ ماجور اور عند الناس مشکور ہوں

والسلام مع الاحترام

از: حیدرآباد، الھند۔
asked Dec 2, 2021 in نکاح و شادی by Naja hafsa

1 Answer

Ref. No. 1721/43-1409

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی کی جانب سے  جب   کوئی وکیل بھی نہیں ہے تو یہ نکاح صحیح نہیں ہوا،  مجلس نکاح میں لڑکی یا اس کے وکیل  کا ہونا ضروری ہے، اس لئے لڑکے کا دوگواہوں کی موجودگی میں صرف ایجاب کرلینا کافی نہیں ہے ،لہذا مذکورہ  نکاح باطل ہے۔ لڑکی ولڑکا دونوں سچے دل سے توبہ کریں، اور بقدر استطاعت صدقہ بھی کریں، اورنکاح نہیں ہوا تو مہر کی ادائیگی لڑکے پر ضروری نہیں ہے۔

فالعقد ھو ربط اجزاء التصرف ای الایجاب والقبول شرعا لکن ھنا ارید بالعقد الحاصل بالمصدر وھو الارتباط لکن النکاح ھو الایجاب والقبول مع ذلک الارتباط۔ وانما قلنا ھذا لان الشرع یعتبر الایجاب والقبول ارکان عقد النکاح لا امورا خارجیۃ کالشرائط ونحوھا وقد ذکرت فی شرح التنقیح فی فصل النھی کالبیع فان الشرع یحکم بان الایجاب والقبول الموجودین حسا یرتبطان ارتباطا حکمیا فیحصل معنی شرعی یکون ملک المشتری اثرا لہ فذلک المعنی ھو البیع۔ (شرح الوقایۃ، کتاب النکاح 2/4، مکتبہ بلال دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Dec 12, 2021 by Darul Ifta
...