Ref. No. 1733/43-1445
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ لڑکی نے جب کہ وہ عاقلہ بالغہ ہے لڑکے کوخود کے ساتھ نکاح کرنے کا وکیل بنادیا تو اب لڑکے کا دوگواہوں کی موجودگی میں اس نکاح کو قبول کرنا درست ہوگیا اور نکاح صحیح ہوگیا اور دونوں میاں بیوی بن گئے۔ اب دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں ہے۔
كما للوكيل) الذي وكلته أن يزوجها على نفسه فإن له (ذلك) فيكون أصيلًا من جانب وكيلًا من آخر." (شامی، 3/ 98ط:سعيد
(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا". (شامی،3/55 کتاب النکاح ، باب الولی، ط: سعید)
"الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلاً بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض". (بدائع الصنائع، 2/ 247،کتاب النکاح، فصل ولایۃ الندب والاستحباب فی النکاح، ط: سعید)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند