87 views
مسئلہ یہ ہے کہ آج کل عام طورپر مارکیٹ میں ایک خریدار مثلاً زید ، بکر سے ایک رکشہ دوسال کی قسطوں پر خریدتا ہے ماہانہ قسط دس ہزار، کل قیمت دولاکھ تیس ہزار ،جس میں  تیس ہزار نقد باقی قسطوں کی صورت میں دینا ہے۔ اب زید  تین ماہ رکشہ چلانے کے بعد دوبارہ بکر کے پاس آکر کہتا ہے کہ یہ رکشہ واپس کردے  ، بکر رکشہ واپس کرنے کی صورت میں کچھ رقم مارکیٹ ویلیوں کے حساب سے کاٹتاہے یعنی تین ماہ کے تیس ہزار کاٹ کر باقی رقم واپس کرتاہے اور رکشہ زید سے واپس لے لیتا ہے،۔
    اب آپ حضرات سے یہ معلوم کرنا ہے کہ کیارکشہ واپس لینے کی صورت میں بکر کے لئے  اس طرح کی کٹوتی جائز ہے  کہ نہیں ؟ بعض حضرات اس کو اقالہ کہہ کر ناجائز کہتے ہیں  برائے کرم مفصل جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں ؟
asked Dec 10, 2021 in تجارت و ملازمت by Muhammad Saeed K

1 Answer

Ref. No. 1734/43-1424

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ ہر وہ چیز جو تاجروں کے عرف میں نقص ثمن کا باعث ہو وہ عیب ہے، اس لئےآج کل کے عرف میں  استعمال شدہ ہونا بھی ایک عیب ہے اس لئے اس کی وجہ سے ثمن میں کمی کرنا  بالکل جائز ہے اور مذکورہ معاملہ درست ہے۔

كذا إذا شرط الأقل لما بيناه إلا أن يحدث في المبيع عيب فحينئذ جازت الإقالة بالأقل؛ لأن الحط يجعل بإزاء ما فات بالعيب، وعندهما في شرط الزيادة يكون بيعا؛ لأن الأصل هو البيع عند أبي يوسف رحمه الله وعند محمد رحمه الله جعله بيعا ممكن فإذا زاد كان قاصدا بهذا ابتداء البيع، وكذا في شرط الأقل عند أبي يوسف رحمه الله؛ لأنه هو الأصل عنده، وعند محمد رحمه الله هو فسخ بالثمن الأول لا سكوت عن بعض الثمن الأول، ولو سكت عن الكل وأقال يكون فسخا فهذا أولى، بخلاف ما إذا زاد، وإذا دخله عيب فهو فسخ بالأقل لما بيناه. (الھدایۃ باب الاقالۃ 3/55)

قال: "وكل ما أوجب نقصان الثمن في عادة التجار فهو عيب"؛ لأن التضرر بنقصان المالية، وذلك بانتقاص القيمة والمرجع في معرفته عرف أهله. (الھدایۃ باب خیارالعیب 3/37)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Dec 15, 2021 by Darul Ifta
...