139 views
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ بندہ ایک دینی مدرسہ چلا رہا ہے اسی مدرسہ کی بلڈنگ میں سکول کی تعلیم بھی  شروع کی گئی ہے اور اسکی طلبہ سے فیس لی جاتی ہے کیا اس فیس سے سکول پڑھانے والے اساتذہ کی تنخواہیں ادا کرنے کے بعد جو پیسے بچتےہیں وہ اپنے ذاتی استعمال میں لا سکتےہیں یا نہیں؟ اور کیا مدرسہ کی بلڈنگ کو سکول پڑھانے کے لئے استعمال کر سکتے ہیں کہ نہیں؟ جب کہ اس سے دینی شعبہ جات پر کوئی اثر نہیں پڑا وہ اسی طرح جاری ہیں اور بندہ مدرسہ کا مہتمم بھی ہے انتظامی امور کو انجام دیتا ہےاور خود بھی اور اہلیہ بھی اسباق پڑھا رہے ہیں اور دونوں تنخواہ بھی نہیں لے رہے
asked Dec 25, 2021 in مساجد و مدارس by Ghulam Sarwar

1 Answer

Ref. No. 1752/43-1464

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مدرسہ کی عمارت میں اگر دینی تعلیم کے اعتبار سے کوئی کمی و کوتاہی نہیں ہورہی ہے  اور مدرسہ کے مقاصد وافادیت پر بھی کوئی اثر نہیں پڑرہا ہے تو وہاں پر اسکولی تعلیم   دے سکتے ہیں۔ اور اسکول میں پڑھنے والے بچوں سے فیس بھی لے سکتے ہیں لیکن اساتذہ کی تنخواہ ودیگر ضروریات کے بعد پیسے بچتے ہوں تو اس کو مدرسہ کے مصارف میں استعمال کیا جائے، آپ بلاتعیین کے اس کو اپنی ذاتی استعمال میں نہیں لاسکتے ہیں۔ چونکہ آپ اور آپ کی اہلیہ دونوں پڑھاتے ہیں، اور نگرانی وانتظامی امور انجام دیتے ہیں اس لئے آپ دونوں اپنی تنخواہ لے سکتے ہیں ۔

المال الموقوف علی المسجد الجامع ان لم تکن للمسجد حاجۃ للمال فللقاضی ان یصرف فی ذلک لکن علی وجہ القرض فیکون دینا فی مال الفئ (الھندیۃ 2/462)  

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Dec 29, 2021 by Darul Ifta
...