69 views
دو آدمی ایک جگہ مشترکہ کاروبار کررہے تھے برابر پیسہ لگاکر مگر کچھ دنوں بعد انمیں سے ایک شخص نے سارا کاروبار اپنی طرف کرلیا  زبردستی. اور دوسرے حصے دار کو کچھ نہیں دیا.. تو کیا اس کا یہ عمل حرام کہلائے گا اور جو پیسہ اس نے مارا ہے وہ حرام کہلائے گا یا نہیں؟ اب یہ شخص مسجد مدرسے میں پیسہ بھی دے دیتا ہے تو کیا یہ دینا بھی ناجائز کہلائے گا
asked Jan 2, 2022 in تجارت و ملازمت by Ahsan Qasmi

1 Answer

Ref. No. 1760/43-1491

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جب دونوں نے پیسے لگاکر کاروبار شروع کیا تو دونوں برابر کے حصہ دار اور حقدار ہوئے، اب اگر ایک شخص نے سارے کاروبار پر قبضہ کرلیا اور نفع و نقصان کا کلی طور پر مالک ہوگیا تو شرکت کے خلاف عمل ہوا، اب شرکت ختم ہوگئی  اور جو کچھ رقم اس کے پاس دوسرے کی ہے وہ لوٹانا ضروری ہے۔ دوسرے کو بلا اسکی رقم لوٹائے سارے کاروبار پر اور سارے مال پر قبضہ کرلینا حرام ہے۔ البتہ اس کاروبار میں چونکہ اس کا مال بھی شامل ہے، اس لئے اس کی پوری آمدنی حرام نہیں ہے بلکہ جو کچھ حصہ دوسرے کا ہے اس میں تصرف حرام ہے۔ اس لئے  اس کا مدرسہ میں چندہ دینا درست ہے اور مدرسہ والے اس پیسے کو اس کے مصرف میں خرچ کرسکتے ہیں، تاہم اگر بطور تنبیہ مدرسہ والے ایسے شخص کا پیسہ قبول نہ کریں تو زیادہ بہتر ہے۔  

ولو خلط السلطان المال المغصوب بمالہ ملکہ فتجب الزکاة فیہ ویورث عنہ لأن الخلط استہلاک إذا لم یمکن تمییزہ عند أبي حنیفة ․․․ ففي البزازیة قبیل کتاب الزکاة: ما یأخذہ من المال ظلماً ویخلطہ بمالہ وبمال مظلوم آخر یصیر ملکاً لہ وینقطع حق الأوّل فلا یکون أخذہ عندنا حراماً محضاً ( الدر المختار مع رد المحتار 3/217 کتاب الزکاة، زکریا دیوبند)

توضيح المسألة ما في التاتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام ۔(رد المحتار ، كتاب البيوع ، باب المتفرقات ، ج: 7 ص: 490)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jan 11, 2022 by Darul Ifta
...