361 views
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسلہ میں
کہ
مسجد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
چند منزلہ بلڈنگ میں ایک فلور مسجد بنانا کیسا ہے؟ کیا اس پر مسجد کا حکم عائد ہوگا؟
پھر اس میں جمعہ ادا کرنا کیسا ہے؟
اسی طرح کسی زمین کو مسجد کے لیے خریدا اور اس کو چند منزلہ بنانے کا ارادہ ہے، بیسمنٹ کو پارکنگ اور ٹایلیٹ باتھروم کے لیے ، گراؤنڈ فلور کو مارکیٹ کے لیے ، فرسٹ فلور کو صرف مسجد کے لیے ، سیکنڈ فلور کو مدرسہ یا اسکول کے لیے اور تھرڈ فلور کو طلبہ کی رہائش کے لئے مختص کرنا کیسا ہے؟
اور
کسی پرانی مسجد کو شہید کر کے از سر نو مذکورہ بالا طریقہ پر تعمیر کرنا کیسا ہے؟

براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں اور اجر عظیم کے مستحق ہوں

المستفتی : محمد فیضان .مرادآباد
asked Jan 24, 2022 in اسلامی عقائد by MAsim

1 Answer

Ref. No. 1797/43-1533

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، اللہ کی ملکیت ہے، اس سے کسی بندے کا کوئی حق وابستہ نہیں رہتاہے۔ مسجد زمین سے آسمان تک پوری کی پوری مسجد ہوتی ہے۔  مسجد ایک  دو منزل  اور اس سے زیادہ  منزل والی بھی ہوسکتی ہے، البتہ مسجد کا نیچے سے اوپر تک ہر فلور مسجد اور مصالح مسجد ہی میں استعمال ہوگا۔ مسجد کا وضو خانہ ، مسجد کے امام و مؤذن کا کمرہ ، مسجد میں نمازیوں کے لئے گاڑی کی پارکنگ وغیرہ کی سہولیات کا شمار مصالح مسجد میں ہوتاہے۔

 چند منزلہ بلڈنگ کے کسی ایک فلور کو مسجد بنانے کی صورت میں اس کو مصلی کہاجائے گا، وہ شرعی مسجد نہیں ہوگی اور مسجد شرعی کے احکام بھی اس پر جاری نہیں ہوں گے، اس میں پنجوقتہ نمازیں اور نماز جمعہ قائم کرنا درست ہے۔اس لئے کسی ایک فلور کو مسجد بناکر باقی فلور میں  ، مارکیٹ،  پارکنگ ،اسکول ، مدرسہ قائم کرنا اور اس میں طلبہ کی رہایش رکھنا جائز نہیں ہے۔  اور کسی پرانی مسجد کو مذکورہ مقصد کے لئے شہید کرنا  قطعا جائز نہیں ہے۔ ان سب کاموں کے لئے کوئی اور انتظام کیا جائے۔ وقف للہ مسجد میں یہ امور ممنوع ہیں ۔

حتی لو لم یخلص المسجد للّٰہ تعالی بأن کان تحتہ سرداب أو فوقہ بیت،أو جعل وسط دارہ مسجداً وأذن للناس بالدخول والصلاة فیہ لا یصیر مسجداً ویورث عنہ إلا إذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ (الاختیار لتعلیل المختار ۲: ۵۲۴،ط: دار الکتب العلمیة بیروت)،قولہ:”أو جعل فوقہ بیتاً الخ“ ظاھرہ أنہ لا فرق بین أن یکون البیت للمسجد أو لا، إلا أنہ یوٴخذ من التعلیل أن محل عدم کونہ مسجداً فیما إذا لم یکن وقفاً علی مصالح المسجد ،وبہ صرح فی الإسعاف فقال: وإذا کان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو کانا وقفاً علیہ صار مسجداً اھ شرنبلالیة۔ قال فی البحر: وحاصلہ أن شرط کونہ مسجداً أن یکون سفلہ وعلوہ مسجداً لینقطع حق العبد عنہ لقولہ تعالی: ”وأن المساجد للہ“بخلاف ما إذا کان السرداب والعلو موقوفاً لمصالح المسجد فھوکسرداب بیت المقدس، وھذا ھو ظاہر الروایة، وھناک روایات ضعیفة مذکورة فی الھدایة (رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، لو بنی فوقہ بیتاً للإمام لا یضر؛ لأنہ من المصالح، أما لو تمت المسجدیة ثم أراد البناء منع الخ تاتر خانیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الوقف ۶: ۵۴۸) ومثلہ في الکتب الأخری من الفقہ الفتاوی ۔

"فقد قال الله تعالى: {وأن المساجد للّٰه} [الجن: 18] و ما تلوناه من الآية السابقة فلايجوز لأحد مطلقًا أن يمنع مؤمنًا من عبادة يأتي بها في المسجد؛ لأن المسجد ما بني إلا لها من صلاة و اعتكاف و ذكر شرعي و تعليم علم و تعلمه و قراءة قرآن و لايتعين مكان مخصوص لأحد." (البحر الرائق  2 / 36 ، کتاب الصلاۃ، فصل ، ط؛ دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Jan 29, 2022 by Darul Ifta
...