250 views
Ref. No. 873
السلام علیکم۔ حضرت جی، ادھار پر چیز بیچنے کی صورت میں زیادہ پیسے لینا ربوا نہیں ہے، برائے مہربانی کوئی آیت یا حدیث کا حوالہ دیدیں۔ کیونکہ میں نے اکاونٹ کی تعلیم حاصل کی ہے، اور دنیا کے فائنانس ماہرین یہی کہتے ہیں کہ ادھار کی صورت میں جو آپ مارکیٹ ویلیو سے زیادہ پیسے لئے، وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے  وہ سود ہے، اس بناء پر انٹرنیشنل اکاونٹنگ اسٹینڈرڈبنے۔ اس وجہ سے مجھے وسوسے آتے ہیں۔ مزید مجھے یہ بھی بتادیں کہ دنیاوی علم اگر کسی چیز میں سود کو ثابت کرے جبکہ شریعت میں وہ سود نہ ہو تو تو اس صورت میں وسوسوں کا کیا کرنا چاہئے؟ آپﷺنے فرمایا جس کام میں سود کا شک بھی ہو وہ نہ کرو۔ بہت پریشان ہوں ، رہنمائی کردیں،
asked Jun 8, 2014 in ربوٰ وسود/انشورنس by fahadyousufaca

1 Answer

Ref. No. 854 Alif

الجواب وباللہ التوفیق

بسم اللہ الرحمن الرحیم :۔ نقد قیمت  اداکرنے پر کم  قیمت میں دینا اور ادھار کی وجہ سے اصل قیمت پر اضافہ کردینا  درست ہے، بشرطیکہ  مجلس عقد ہی میں قیمت کا نقد یا ادھار ہونا متعین ہوگیا ہو۔   اور پھر جو قیمت طے ہوجائے خریدار سے اسی کا مطالبہ ہو ،  ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے اس پر کوئی اوراضافہ  ہرگزنہ کیا جائے۔ اس  کو فقہاء نے جائز لکھا ہے ، اس میں شبہ نہ کیا جائے۔ آئندہ جو بھی صورت پیش آئے گرچہ بینک اس کو سود کا نام دے، آپ کسی  ماہر مفتی سے صورت حال بتاکر شرعی نقطہ نظر معلوم کرلیں کہ آیا شرعی اعتبار سے بھی وہ سود ہے یا نہیں۔ (ھدایہ) واللہ اعلم بالصواب

 

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

answered Dec 15, 2014 by Darul Ifta
...