Ref. No. 873
السلام علیکم۔ حضرت جی، ادھار پر چیز بیچنے کی صورت میں زیادہ پیسے لینا ربوا نہیں ہے، برائے مہربانی کوئی آیت یا حدیث کا حوالہ دیدیں۔ کیونکہ میں نے اکاونٹ کی تعلیم حاصل کی ہے، اور دنیا کے فائنانس ماہرین یہی کہتے ہیں کہ ادھار کی صورت میں جو آپ مارکیٹ ویلیو سے زیادہ پیسے لئے، وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ سود ہے، اس بناء پر انٹرنیشنل اکاونٹنگ اسٹینڈرڈبنے۔ اس وجہ سے مجھے وسوسے آتے ہیں۔ مزید مجھے یہ بھی بتادیں کہ دنیاوی علم اگر کسی چیز میں سود کو ثابت کرے جبکہ شریعت میں وہ سود نہ ہو تو تو اس صورت میں وسوسوں کا کیا کرنا چاہئے؟ آپﷺنے فرمایا جس کام میں سود کا شک بھی ہو وہ نہ کرو۔ بہت پریشان ہوں ، رہنمائی کردیں،