60 views
عنوان:جرمانے کا رقم
سوال:السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ مفتیان کرام صاحبان سوال: ہماری بستی میں ایک مدرسہ ہے جس میں ایک صاحب کہیں سے ایک مشت موٹی رقم لاکر مدرسے کو دیا اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ رقم جرمانے کا ہے فورأ مدرسے کے ذمےداروں نے اس رقم کو لوٹا نے کی نیت کرلی لیکن اس رقم کو مدرسے استعمال کر لیا ہے موٹی رقم ہونے کی وجہ سے ایک مشت ادا کرنا مشکل ہے کیا ہم اسکو قسطوں میں ادا کر سکتے ہیں دوسری بات یہ ہے کہ اس رقم سے تعمیر شدہ کمرے کو ہم تعلیم کے لئے استعمال کر سکتے ہیں ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب مرحمت فرمائیں
asked Jun 7, 2022 in مساجد و مدارس by Naseem Akhtar

1 Answer

Ref. No. 1869/43-1730

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ شریعت میں مال پر جرمانہ جائز نہیں، کیونکہ کسی مسلمان کو شرعی وجہ کے بغیر کسی کامال لینا جائز نہیں ہے ۔ ۔ظلم وزیادتی کے ذریعے لئے ہوئے مال کو مدرسہ میں  پر خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔جس قدر جلد ہوسکے جرمانہ کی رقم ادا کردی جائے، اگر جلد اداکرنا ممکن نہ ہو تو اس  کو قسطوار اداکردیاجائے تاکہ حقدار کو اس کا حق مل جائے ۔ اس رقم سے تعمیر شدہ کمرے کو تعلیم کے لئے استعمال کیا جاسکتاہے، بشرطیکہ جس قدر رقم اس میں لگی ہے وہ اس کے مالک کو لوٹادی جائے۔

''وفي شرح الآثار : التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ .والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال''۔ (رد المحتار) (4/ 61)

"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي." (رد المحتار) (4/ 61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jun 21, 2022 by Darul Ifta
...