106 views
السلامُ علیکم ورحمت اللّٰہ و برکاتہ کیا فرماتے ہے ہیں علمائے کرام و مفتیان عظام مسئلہ ذیل کے بارے میں
 ایک قاضی صاحب نے لڑکا اور لڑکی کے شادی اس طرح پڑھایا
 پہلے لڑکی کو فون کے ذریعے سے بات چیت کی اور  نام پوچھا اور کہا آ پ کا نکاح فلاں  لڑکے کے ساتھ طےکی جارہی ہے آپ نے قبول  کیا
 لڑکی بولی جی میں نے قبول کیا  پھر  لڑکے کو نکاح پڑھایا
نکاح کی مجلس میں  لڑکی کے   والد صاحب اور دیگر حضرات موجود تھے  لڑکے کو نکاح پڑھاتے وقت  لڑکا کے خالو موجود تھے  نکاح کی مجلس میں تقریبا دس یا  بارہ آ دمی  موجود تھے  اس   نکاح کو تقریبا تین سال یا چار سال ہو چکا ہے کیا اس طریقے سے  لڑکی   کو فون کے
 ذریعےسے نکاح کی اجازت لے کر  لڑکا کو نکاح پڑھا دیا تو نکاح ہوا یا نہیں
   نوٹ نکاح کی مجلس میں لڑکی کے والد صاحب اور دیگر حضرات  لڑکا بھی موجو تھا اور
 لڑکے کے خالو اور دیگر حضرات موجود تھے
العارض فضل الر حمن اسلامپور موہنی ارریہ بہار
asked Jul 3, 2022 in نکاح و شادی by Md Fazlurrahman

1 Answer

Ref. No. 1905/43-1797

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   نکاح مذکور درست نہیں ہوا۔ فون پر نکاح کا مذکورہ طریقہ درست نہیں  تھا۔ نکاح کے لئے ایجاب و قبول کا ایک ہی مجلس میں ہونا شرط ہے جبکہ لڑکی مجلس میں موجود نہیں ہے، لڑکی کے والد اور دیگر حضرات گواہ بن سکتے تھے اگر ایجاب و قبول درست ہوتا۔اس لئے یہ نکاح درست نہیں ہوا تھا۔ البتہ  اگر لڑکی قاضی صاحب کو فون پر اپنا وکیل بنادیتی کہ میرا نکاح آپ فلاں سے کردیں، اور پھر مجلس میں قاضی صاحب کہدیتے کہ میں نے فلاں لڑکی کا نکاح آپ (لڑکے) سے کردیا تو اس طرح نکاح درست ہوجاتا۔  الغرض مذکورہ نکاح درست نہیں ہوا، اب دوبارہ درست طریقہ پر نکاح کرلیا جائے۔  

ومن شرائط الإیجاب والقبول اتحاد المجلس لو حاضرین وإن طال کمخیرة۔ (الدر المختار مع الشامي: 4/76، ط زکریا دیوبند)  

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى." (الفتاوى الهندية (1/ 269)

"ثم النكاح كما ينعقد بهذه الألفاظ بطريق الأصالة ينعقد بها بطريق النيابة، بالوكالة، والرسالة؛ لأن تصرف الوكيل كتصرف الموكل، وكلام الرسول كلام المرسل، والأصل في جواز الوكالة في باب النكاح ما روي أن النجاشي زوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أم حبيبة - رضي الله عنها - فلايخلو ذلك إما أن فعله بأمر النبي صلى الله عليه وسلم أو لا بأمره، فإن فعله بأمره فهو وكيله، وإن فعله بغير أمره فقد أجاز النبي صلى الله عليه وسلم عقده والإجازة اللاحقة كالوكالة السابقة". (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 231)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jul 5, 2022 by Darul Ifta
...