51 views
کیافرماتےہیں مفتیان کرام مسئلہ ذیل کےبارےمیں!

ایک مسجدمیں کوئ امام نہیں ہے کوئ بھی شخص نمازپڑھادیتاہے، اور نکاح بھی کوئ بھی پڑھادیتاہے، لیکن جورقم نکاح پڑھانےکی ملتی ہے کمیٹی کےلوگ نکاح خواں کونہیں دیتے بلکہ ان پیسوں کی مسجد کی رسیدبناتےہیں، تو کیااس طرح سے نکاح خواں کےپیسوں کو مسجدمیں
لگاناجائزہے?

محمدخضربجنوری
asked Jul 17, 2022 in متفرقات by Mohd.khizar

1 Answer

Ref. No. 1921/43-1823

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔   اگر دینےوالے نکاح خواں کو پیسے دیتے ہیں تو اس کی مرضی کے بغیر رسید بنالینا جائز نہیں ہے، البتہ اگر وہ خوشی سے مسجد کو دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اور اگر دینےوالوں  نے رقم  مسجد میں دی ہے تو وہ رقم مسجد کی ہی ہے، کسی کو اپنے ذاتی استعمال میں لانا جائز نہیں ہے۔ الحاصل دینے والے جس کو رقم دیں گے وہی اس کا مالک ہوگا، اور مالک کی مرضی کے بغیر اس سے چندہ لینا یا رسید بنادینا جائز نہیں ہے۔

وَفِي فَتَاوَى النَّسَفِيِّ: إذَا كَانَ الْقَاضِي يَتَوَلَّى الْقِسْمَةَ بِنَفْسِهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ، وَكُلُّ نِكَاحٍ بَاشَرَهُ الْقَاضِي وَقَدْ وَجَبَتْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ كَنِكَاحِ الصِّغَارِ وَالصَّغَائِرِ فَلَايَحِلُّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، وَمَا لَمْ تَجِبْ مُبَاشَرَتُهُ عَلَيْهِ حَلَّ لَهُ أَخْذُ الْأُجْرَةِ عَلَيْهِ، كَذَا فِي الْمُحِيطِ. وَاخْتَلَفُوا فِي تَقْدِيرِهِ، وَالْمُخْتَارُ لِلْفَتْوَى أَنَّهُ إذَا عَقَدَ بِكْرًا يَأْخُذُ دِينَارًا وَفِي الثَّيِّبِ نِصْفَ دِينَارٍ وَيَحِلُّ لَهُ ذَلِكَ هَكَذَا قَالُوا، كَذَا فِي الْبُرْجَنْدِيِّ"( كتاب أدب القاضي، الْبَابُ الْخَامِسَ عَشَرَ فِي أَقْوَالِ الْقَاضِي وَمَا يَنْبَغِي لِلْقَاضِي أَنْ يَفْعَل، ٣ / ٣٤٥)

عن أبي حرة الرقاشي عن عمہ رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا لا تظلموا! ألا لا یحل مال امرء إلا بطیب نفس منہ۔ (مشکاة المصابیح / باب الغصب والعاریة، الفصل الثاني ۲۵۵)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jul 26, 2022 by Darul Ifta
...