376 views
بجاج فائنانس کے ساتھ کاروبار کرنے کا کیا حکم ہے ؟
Bajaj  فائنانس میں قسط پر خریداری متعین وقت سے قست لیٹ ہوجاتی ہے تو تو جرمانہ کے طور پر اضافی رقم ادا کرنی پڑتی ہے ہے اسلئے یہ معاملہ خریدنے والے کے لیے کیسا ہے
اوراسی طرح جو بیچنے والا ہے  اُسنے فائنانس کے ذریعےسارا مال اس طرح قست پر بیچ کر جو نفع حاصل کیا وہ نفع کیسا ہے بیچنے والے کے حق میں ۔۔۔کیا بیچنے والے کے لیے یہ نفع حلال ہے یا حرام
اُمید ہے کہ آپ وضاحت کے ساتھ جواب عنایت فرمائینگے
asked Jul 22, 2022 in تجارت و ملازمت by ابرار

1 Answer

Ref. No. 1931/43-1830

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  قسطوں پر خریداری کی مذکورہ صورت جائز نہیں ہے۔  اگر آپ  اس طرح کی کسی کمپنی کے ساتھ معاملہ کریں تو وقت پر ادائیگی کریں تاکہ سود نہ دینا پڑے۔ جو اضافی رقم بطور جرمانہ کے ادا کیجاتی ہے وہ سود کے زمرے میں آتی ہے۔ سودی معاملہ کرنا جائز نہیں ہے۔ جس طرح کسی مسلمان کے لئے سود لینا جائز نہیں ہے اسی طرح اس کا  دینا بھی جائز نہیں ہے۔ حدیث میں سودی معاملہ میں ہر طرح کے تعاون کو حرام قرار دیا گیا ہے، اور اسے سنگین جرم بتایاگیا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے لئے مذکورہ طریقہ پر نفع حاصل کرنے سے احتراز لازم ہے۔ 

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ} [المائدة:2] ( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ . فَإِنْ لَمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لا تَظْلِمُونَ وَلا تُظْلَمُونَ۔ عن جابر، قال: «لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه»، وقال: «هم سواء»۔(الصحيح لمسلم ، كتاب البيوع ، باب لعن آكل الربوا ج: 2 ص: 27)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jul 27, 2022 by Darul Ifta
...