104 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل مسئلہ کے متعلق
 کیا ایسے مسجد جو مدرسہ کے احاطہ میں ہو اس میں قرآن پڑھنا پڑھانا کیسا ہے جبکہ مدرسہ میں اتنی وسعت ہو کہ وہاں پر پڑھایا جا سکتا ہے لیکن مدرسہ والے کہتے ہیں کہ گرمی زیادہ ہے اور درسگاہوں میں گھوٹ بن جاتا ہے جس سے طلبہ کو دشواری ہوتی ہے اور بستی والوں کو اس پر اعتراض ہے تو کیا ایسے حالات میں اجازت ہے
   مدلل جواب مرحمت فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں
محمد ولی اللہ قاسمی میرٹھی
asked Jul 25, 2022 in مساجد و مدارس by Mohd Danish

1 Answer

Ref. No. 1938/44-1863

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مدرسہ کے احاطہ  میں موجود مسجد اگر مسجد شرعی ہے تو اس کے بھی وہی احکام ہیں جو دیگر مساجد کے ہیں، اورمساجد کی تعمیر کے مقاصد میں دینی تعلیم بھی شامل ہوتی ہے۔ اس لئے انتظامیہ کی اجازت سے مسجد میں قرآن کریم کی تعلیم کا نظم کرنا اور مسجد کی بجلی کا استعمال کرنا جائز ہے۔تاہم اگر مدرسہ میں گنجائش ہے اور مسجد میں حفظ کی کلاس سے  نمازیوں کو دشواری ہوتی ہے تو مدرسہ میں ہی نظم کرلینا بہتر ہے۔  

"وتعلیم الصبیان فیه بلاأجر و بالأجر یجوز". ( البزازیة،کتاب الکراهیة، الفصل الأول، نوع في المسجد، زکریا جدید۳/۲۰۱، وعلی هامش الهندیة، ۶/۳۵۷) "معلم الصبیان بأجر لو جلس فیه لضرورة الحر لا بأس به، وکذا التعلیم إن بأجر کره إلا للضرورة، وإن حسبة لا". ( البزازیة،زکریاجدید، ۱/۵۵، وعلی هامش الهندیة، ۴/۸۲) "أما الکاتب ومعلم الصبیان فإن کان بأجر یکره وإن کان حسبةً فقیل: لایکره، والوجه ماقاله إبن الهمام: أنه یکره التعلیم إن لم یکن ضرورةً؛ لأن نفس التعلیم ومراجعة الأطفال لایخلو عما یکره في المسجد". (حلبي کبیر، أشرفیه /۶۱۱، ۶۱۲)

"ویکره أن یخیط في المسجد؛ لأنه أعد للعبادة دون الاکتساب، کذا الوراق والفقیه إذا کتب بأجرة، وأما المعلم إذا علم الصبیان بأجرة، وإن فعلوا بغیر أجرة فلا بأس به". (الخانیة، کتاب الطهارة، فصل في المسجد، زکریا جدید۱/۴۳، وعلی هامش الهندیة ۱/۶۵، ۶۶) "معلم جلس في المسجد أو ورّاق کتب في المسجد، فإن کان المعلم یعلم بالأجروالورّاق یکتب لغیره، یکره لهما إلا أن یقع لهما الضرورة".  (التاتار خانیة، زکریا ۱۸/۶۶، رقم: ۲۸۴۷) "أما المعلم الذي یعلم الصبیان بأجر إذا جلس في المسجد یعلم الصبیان لضرورة الحر أو غیره لایکره. وفي نسخة الإمام: جعل مسألة المعلم کمسألة الکاتب". (الهندیة، الصلاة، فصل کره غلق باب المسجد، زکریا قدیم ۱/۱۱۰، جدید۱/۱۶۹)

"ومعلم الصبیان القرآن کالکاتب إن کان لأجر لا وحسبة لا بأس به". (اعلاء السنن ۵/۱۳۳، دارالکتب العلمیۃ بیروت۵/۱۷۹، الموسوعۃ الفقہیۃ ۳/۲۰۶، فتح القدیر کوئٹہ ۱/۳۶۹، زکریا ۱/۴۳۵، دارالفکر۱/۴۲۲، خلاصۃ الفتاویٰ اشرفیہ ۱/۲۲۹، حلبی کبیر،  سہیل اکیڈمی لاہور/۶۱۲)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Aug 7, 2022 by Darul Ifta
...