116 views
اسلام علیکم
سوال
1.کیا افیلیٔٹ مارکیٹنگ (Affiliate marketing)سے کمانا جائز ہے ؟
2. جس طرح ٹی وی پر تصاویر والی ایڈز دکھائی جاتی ہے اسی طرح کی وڈیوز کے ساتھ کیا افیلئیٹ مارکیٹنگ(Affiliate marketing) کرنا جائز ہے ؟
3. افیلئیٹ مارکیٹنگ کے ۳طریقے ہیں
۱ــ جسکا پروڈکٹ ہے وہ خود ایک ویڈیو دیتا ہے جسمیں تھوڑا بہت ردوبدل کرکے اپنی لینک لگاتے ہیں
۲ــ کسی اور جگہ سے ویڈیو لیکر اسمیں اپنی لینک لگاتے ہیں
۳ــ خود کی وڈیو بنانا۔
asked Jul 25, 2022 in تجارت و ملازمت by Mohammed Owais

1 Answer

Ref. No. 1928/44-1984

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور صورت میں جس پراڈکٹ کا لنک ویب سائٹ مالک نے لگایا ہے، اگر وہ پراڈکٹ جائز ہے اور کمیشن متعین رقم یا پراڈکٹ کی قیمت کے متعین فیصد کے بقدر طے شدہ ہے تو یہ کام کرنا اور اس کی  اجرت لینا جائز ہے۔چونکہ اس میں لنک تشکیل دینے والے کی حیثیت اجیر کی ہے اور اجیر کا کام اس میں یہ ہے کہ وہ ویب سائٹس پر بیچے جانے والی چیزوں کا لنک تشکیل دیتا ہے اور لوگوں کو اس چیز کی خریداری کی طرف رغبت دلاکر مخصوص ویب سائٹس تک لے کر جاتا ہے، لہٰذا اس صورت میں لنک تشکیل دینے والے کو جو کمیشن ملے گا وہ سامان کی لنک سوشل میڈیا پر شیئر کرنے اور اس کے بکوانے کے سلسلے میں جو اس نے کوشش اور محنت کی ہے اس کا حق المحنت ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جتنا کمیشن ملنا ہو، وہ پہلے سے طے ہو۔ اس میں کسی قسم کی جہالت نہ ہو۔

’’إجارۃ السمسار والمنادی والحمامی والصکاک وما لا یقدر فیہ الوقت ولا العمل تجوز لما کان للناس بہ حاجۃ ویطیب الأجر المأخوذ لو قدر أجر المثل‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’ ‘‘: ج ۶، ص: ۴۷، ط: دار الفکر)

’’وأما الدلال فإن باع العین بنفسہ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع وإن سعی بینہما وباع المالک بنفسہ یعتبر العرف وتمامہ في شرح الوہبانیۃ۔

(قولہ: فأجرتہ علی البائع) ولیس لہ أخذ شيء من المشتری؛ لأنہ ہو العاقد حقیقۃ شرح الوہبانیۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا؛ لأنہ لا وجہ لہ۔ (قولہ: یعتبر العرف) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتری أو علیہما بحسب العرف جامع الفصولین‘‘ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار: ج ۴، ص: ۵۶۰)

’’إذا باع الدلال مالا بإذن صاحبہ تؤخذ أجرۃ الدلالۃ من البائع ولا یعود البائع بشیء من ذلک علی المشتری لأنہ العاقد حقیقۃ وظاہرہ أنہ لا یعتبر العرف ہنا لأنہ لا وجہ لہ أما إذا کان الدلال مشی بین البائع والمشتری ووفق بینہما ثم باع صاحب المال مالہ ینظر فإن کان مجری العرف والعادۃ أن تؤخذ أجرۃ الدلال جمیعہا من البائع أخذت منہ أو من المشتری أخذت منہ أو من الاثنین أخذت منہما  أما إذ باع الدلال المال فضولا لا بأمر صاحبہ فالبیع المذکور موقوف ویصبح نافذا إذ أجاز صاحب المال ولیس للدلال أجرۃ فی ذلک لأنہ عمل من غیر أمر فیکون متبرعا‘‘ (درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام: ج ۱، ص: ۲۳۱) فقط

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Sep 7, 2022 by Darul Ifta
...