55 views
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔
ایک آدمی چار رکعت والی نماز بیٹھ کر پڑھ رہا ہے تو دو رکعت کے بعد تشہد پڑھنے کے بجائے تیسری رکعت کے لئے ہاتھ باندھ لے اور ہاتھ باندھتے ہی قعدہ یاد آجائے تو کیا قعدے میں واپس آئے گا یا پھر آگے بڑھ جائے گا
واضح رہے کہ شخص مذکور نماز بیٹھ کر پڑھ رہا ہے
asked Jul 27, 2022 in نماز / جمعہ و عیدین by محمد سعدان

1 Answer

Ref. No 194344-1858

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  نماز میں قیام فرض ہے، قیام پر قدرت کے باوجود بیٹھ کرنماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔ اور نماز میں جب قیام پر قدرت ہو جائے قیام کرنا ضروری ہوجاتاہے۔ اس لئے اگربحالت مجبوری  بیٹھ کر نماز پڑھتے ہوئے کوئی  شخص بھول کر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد نہ پڑھ سکا، اور ابھی سورہ فاتحہ شروع نہیں  کی، تو اب واپس آکر قعدہ اولی کی نیت سے تشہد پڑھنا درست ہے۔   اور اگر سورہ فاتحہ شروع کردی تو اس کو چاہیے کہ نماز آگے پڑھے اور اخیر میں سجدہ سہو کرلے، اس سے نماز درست ہوجائے گی۔ اور اگر قراءت شروع کرنے کے بعد واپس قعدہ میں آگیا ، تو بھی صحیح قول کے مطابق نماز درست ہوجائے گی۔

من فرائضہا القیام في فرض لقادر علیہ وعلی السجود“ (درمختار مع الشامی زکریا: ۲/۱۳۲) وإن قدر علی بعض القیام ولو متکئا علی عصا أو حائط قام لزوما بقدر ما یقدر ولو قدر آیة أو تکبیرة علی المذہب لأن البعض معتبر بالکل“ (در مختار مع الشامی زکریا: ۲/۲۶۷) وإن لم یکن کذلک (أی بما ذُکر) ولکن یلحقہ نوع مشقة لا یجوز ترک القیام“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷) وإن عجز عن القیام وقدر علی القعود؛ فإنہ یصلی المکتوبة قاعدًا برکوع وسجود ولا یجزیہ غیر ذلک“ (تاتارخانیہ زکریا: ۲/۶۶۷)

سها عن القعود الأول من الفرض) ولو عملياً، أما النفل فيعود ما لم يقيد بالسجدة (ثم تذكره عاد إليه) وتشهد، ولا سهو عليه في الأصح  (ما لم يستقم قائماً) في ظاهر المذهب، وهو الأصح فتح (وإلا) أي وإن استقام قائماً (لا) يعود لاشتغاله بفرض القيام (وسجد للسهو) لترك الواجب (فلو عاد إلى القعود) بعد ذلك (تفسد صلاته) لرفض الفرض لما ليس بفرض، وصححه الزيلعي (وقيل: لا) تفسد، لكنه يكون مسيئاً ويسجد لتأخير الواجب (وهو الأشبه)، كما حققه الكمال، وهو الحق، بحر''۔ (الدر المختار مع رد المحتار(2/ 83،  کتاب الصلوٰۃ ، باب سجود السہو، ط: سعید)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Aug 7, 2022 by Darul Ifta
...