70 views
سوال: کیافرماتے ہیں علماءکرام ومفتیان عظام درجہ ذیل  مسائل کے بارے میں؛
(1)    سرکاری ملازمت میں حقائق اور دستاویزات کے برعکس جعلی دستاویزات پیش کرکے ملازمت حاصل کرنا۔
(2)    اور اگر ایسی دستاویزات کے بدولت کوئی ملازمت مل جائے، تو کیا ملازم کی تنخوا لینا  استمرار احرام ہوگی یا نہیں؟
(3)    ایک مفتی صاحب جو کہ ایک سرکاری دارالعلوم میں دارالافتاء کا رئیس بھی ہے ، انہوں نے بطور مالی پوسٹ پر اپلائی کیا ہے اور وہ سرکاری ملازم /مالی بن  گیا جو کہ اس کا اصل کام ہے پوسٹ کے اعتبار سے۔کیا وہ  اس پوسٹ پر کوئی اور آدھی تنخوا پر لگا سکتا ہے اپنی طرف سے ، اور خود سرکاری درالافتاء کا مفتی بن کر لوگوں کو فتوے دیے جائیں۔ کیا یہ شرعا ٹھیک ہے یا نہیں؟اور اس کے دیے ہوئے فتاوی جات کاشرعا اعتبار کیا جائے گا یا نہیں؟
المستفتی: شاہد خان جہان آباد چارباغ سوات۔
asked Aug 4, 2022 in تجارت و ملازمت by Samiullah

1 Answer

Ref. No. 1958/44-1871

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔(1) جعلی دستاویز بناکر نوکری حاصل کرنا سراسر دھوکہ اور فریب ہے، اسلام میں اس کی قطعا اجازت نہیں ہے۔ (2) البتہ اگر جعلی دستاویز کی بنیاد پر ملازمت مِل جائے اور کام کرنا شروع کردے تو اجرت اور تنخواہ لینا جائز ہوگا، اور وہ آمدنی  جوکام کے عوض ہے  وہ حرام نہیں ہوگی۔ (3) سرکار نے جس ملازمت پر جس کو رکھا ہے، یہ اسی کی ذمہ داری ہے، اپنی جگہ کسی اور کو مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔

عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ:« مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلاَحَ فَلَيْسَ مِنَّا،وَمَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا». (صحيح مسلم:حدیث رقم:294) وقال ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ:وفي حديث ابن مسعودٍ عنِ النَّبيِّ صلى الله عليه وسلم : ”مَنْ غَشَّنا فليس منَّا ، والمكرُ والخِداعُ في النار“. وقد ذكرنا فيما تقدَّم حديث أبي بكر الصدِّيق المرفوع : ”ملعونٌ من ضارَّ مسلماً أو مكرَ به “.خرَّجه الترمذيُّ. (جامع العلوم والحكم :35/ 9) وفي المحيط ومهر البغي في الحديث هو أن يؤاجر أمته على الزنا وما أخذه من المهر فهو حرام عندهما ، وعند الإمام إن أخذه بغير عقد بأن زنى بأمته ، ثم أعطاها شيئا فهو حرام ؛ لأنه أخذه بغير حق وإن استأجرها ليزني بها ، ثم أعطاها مهرها أو ما شرط لها لا بأس بأخذه ؛ لأنه في إجارة فاسدة فيطيب له وإن كان السبب حراما . ( البحر الرائق:8/33،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ)

قال العلامة ابن نجيم رحمه الله تعالى:وأما ركنها فهو الإيجاب والقبول والارتباط بينهما، وأما شرط جوازها فثلاثة أشياء: أجر معلوم، وعين معلوم، وبدل معلوم، ومحاسنها دفع الحاجة بقليل المنفعة، وأما حكمها فوقوع الملك في البدلين ساعة فساعة. )البحر الرائق:8/3

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Aug 9, 2022 by Darul Ifta
...