54 views
جبکہ قرآن کریم کی آیت مبارکہ ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایک انسان کے گناہ  کا بوجھدوسرے انسان پرنہیں ہوتا  
اس پر راہنماٸی فرمائی جاٸے
asked Sep 1, 2022 in قرآن کریم اور تفسیر by M Owais Qarni

1 Answer

Ref. No. 2011/44-1987

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ سوال میں مذکور مضمون قرآن کریم کی مختلف آیتوں میں بیان کیاگیاہے۔ تفسیر معارف القرآن میں سورۃ الانعام کی آیت نمبر 162  کی تفسیری عبارت ملاحظہ فرمائیں:

کسی کے گناہ کا بھار دوسرا نہیں اٹھا سکتا

چوتھی آیت میں مشرکین مکہ ولید بن مغیرہ وغیرہ کی اس بات کا جواب ہے جو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور عام مسلمانوں سے کہا کرتے تھے کہ تم ہمارے دین میں واپس آجاؤ ، تو تمہارے سارے گناہوں کا بھار ہم اٹھالیں گے، اس پر فرمایا (آیت) قُلْ اَغَيْرَ اللّٰهِ اَبْغِيْ رَبًّا وَّهُوَ رَبُّ كُلِّ شَيْءٍ، اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ارشاد ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجئے کہ کیا تم مجھ سے یہ چاہتے ہو کہ تمہاری طرح میں بھی اللہ کے سوا کوئی اور رب تلاش کر لوں، حالانکہ وہی سارے جہان اور ساری کائنات کا رب ہے، اس گمراہی کی مجھ سے کوئی امید نہ رکھو، باقی تمہارا یہ کہنا کہ ہم تمہارے گناہوں کا بھار اٹھالیں گے یہ خود ایک حماقت ہے، گناہ تو جو شخص کرے گا اسی کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا، اور وہی اس کی سزا کا مستحق ہوگا، تمہارے اس کہنے سے وہ گناہ تمہاری طرف کیسے منتقل ہوسکتا ہے، اور اگر خیال ہو کہ حساب اور نامہ اعمال میں تو انہی کے رہے گا لیکن میدان حشر میں اس پر جو سزا مرتب ہوگی وہ سزا ہم بھگت لیں گے، تو اس خیال کو بھی اس آیت کے اگلے جملہ نے رد کر دیا، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي ، ”یعنی قیامت کے روز کوئی شخص دوسرے کا بھار گناہ نہیں اٹھائے گا“۔

اس آیت نے مشرکین کے بیہودہ قول کا جواب تو دیا ہی ہے، عام مسلمانوں کو یہ ضابط بھی بتلا دیا کہ قیامت کے معاملہ کو دنیا پر قیاس نہ کرو کہ یہاں کوئی شخص جرم کرکے کسی دوسرے کے سر ڈال سکتا ہے، خصوصاً جب کہ دوسرا خود رضا مند بھی ہو، مگر عدالت الٓہیہ میں اس کی گنجائش نہیں، وہاں ایک کے گناہ میں دوسرا ہرگز نہیں پکڑا جا سکتا، اسی آیت سے استدلال فرما کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ولد الزنا پر والدین کے جرم کا کوئی اثر نہیں ہوگا، یہ حدیث حاکم نے بسند صحیح حضرت عائشہ سے روایت کی ہے۔

اور ایک میّت کے جنازہ پر حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے کسی کو روتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ زندوں کے رونے سے مردہ کو عذاب ہوتا ہے، ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ قول حضرت عائشہ (رض) کے سامنے نقل کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ایک ایسے شخص کا یہ قول نقل کر رہے ہو جو نہ کبھی جھوٹ بولتا ہے اور نہ ان کی ثقاہت میں کوئی شبہ کیا جاسکتا ہے، مگر کبھی سننے میں بھی غلطی ہو جاتی ہے، اس معاملہ میں تو قرآن کا ناطق فیصلہ تمھارے لئے کافی ہے : (آیت) وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي، ”یعنی ایک کا گناہ دوسرے پر نہیں پڑ سکتا، تو کسی زندہ آدمی کے رونے سے مردہ بےقصور کس طرح عذاب میں ہوسکتا ہے (درمنثور)

آخر آیت میں ارشاد فرمایا کہ ”پھر تم سب کو بالآخر اپنے رب ہی کے پاس جانا ہے، جہاں تمہارے سارے اختلاف کا فیصلہ سنا دیا جائے گا“۔ مطلب یہ ہے کہ زبان آوری اور کج بحثی سے باز آؤ ، اپنے انجام کی فکر کرو ۔  (تفسیر معارف القرآن از مفتی شفیع صاحب ، سورۃ الانعام آیت 162)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Sep 6, 2022 by Darul Ifta
...