Ref. No. 2031/44-1997
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ عورت کو اس قدر جلدبازی سے کام نہیں لینا چاہیے تھا۔ شوہر کے غائب ہونے کی رپورٹ کرکے کسی دارالقضاء سے رجوع کرنا چاہیے تھا تاکہ مناسب طریقہ سے نکاح کو فسخ کیاجائے۔ کم از کم کسی مفتی صاحب سے ہی مسئلہ معلوم کرلینا چاہیے تھا۔ بہرحال صورت مسئولہ میں یہ عورت اپنے پہلے شوہر کی ہی بیوی ہے، دوسرے مرد سے نکاح منعقد ہی نہیں ہوا۔ اور شوہر کا مال شوہر کی ہی ملکیت میں رہے گا، عورت کا اس کو اپنے نام کرالینا ناجائز اور حرام ہے۔ جو زمین مسجد کو دیدی گئی وہ زمین بھی شوہر کے حوالہ کردی جائے، اس پر شوہر کو مکمل اختیار ہے، چاہے تو مسجد رہنے دے اور چاہے تو واپس لے لے۔
ولو قضى على الغائب بلا نائب ينفذ) في أظهر الروايتين عن أصحابنا". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414)
"قلت: ويؤيده ما يأتي قريبا في المسخر، وكذا ما في الفتح من باب المفقود لايجوز القضاء على الغائب إلا إذا رأى القاضي مصلحة في الحكم له وعليه فحكم فإنه ينفذ؛ لأنه مجتهد فيه اهـ". (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5 / 414)
وقال في الدر المنتقى: ليس بأولى، لقول القهستاني: لو أفتى به في موضع الضرورة لا بأس به على ما أظن اهـ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4 / 295)
"وأما تخييره إياه بين أن يردها عليه وبين المهر فهو بناء على مذهب عمر رضي الله عنه في المرأة إذا نعي إليها زوجها فاعتدت وتزوجت ثم أتى الزوج الأول حياً أنه يخير بين أن ترد عليه وبين المهر، وقد صح رجوعه عنه إلى قول علي رضي الله عنه، فإنه كان يقول: ترد إلى زوجها الأول، ويفرق بينها وبين الآخر، ولها المهر بما استحل من فرجها، ولا يقربها الأول حتى تنقضي عدتها من الآخر، وبهذا كان يأخذ إبراهيم رحمه الله فيقول: قول علي رضي الله عنه أحب إلي من قول عمر رضي الله عنه، وبه نأخذ أيضاً؛ لأنه تبين أنها تزوجت وهي منكوحة، ومنكوحة الغير ليست من المحللات، بل هي من المحرمات في حق سائر الناس" (المبسوط للسرخسي ـ موافق للمطبوع (11/ 64)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند