الجواب وباللّٰہ التوفیق:بشرط صحت سوال غیر مسلم کے مرنے اور اس کی تیرھویں میں شریک ہونے سے مذکورہ شخص ایمان سے خارج نہیں ہوتا؛ البتہ گناہگار ہوتا ہے۔(۱
(۱) و إذا مات الکافر قال لوالدہ أو قریبہ في تعزیتہ أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک أي أصلحک بالإسلام ورزقک ولدا مسلما لأن الخیریۃ بہ تظہر، کذا في التبیین۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیۃ، ’’الباب الخامس عشر في الکسب‘‘: ج ۵، ص: ۳۴۸)
جار یہودي أو مجوسي مات ابن لہ أو قریب ینبغي أن یعزبہ ویقول أخلف اللّٰہ علیک خیرا منہ وأصلحک وکان أصلحک اللّٰہ بالإسلام۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الحظر والإباحۃ، فصل في البیع‘‘: ج ۹، ص: ۵۵۷)
ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا ولا نزیل عنہ اسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ- شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
)
نوٹ: ہاں کوئی مصلحت پیش نظر نہ ہو تو ان کی رسموں میں شرکت نہیں کرنی چاہئے؛ اس لئے کہ ان کی رسموں میں شرکت باعث گناہ ہے، اور ان کی رسوم وعقائد کو دل سے برا سمجھنا چاہئے؛ اس لئے کہ ان کے باطل عقائد کو صحیح سمجھنے اور ان کی غیر شرعی رسموں پر رضامندی سے ایمان ہی خطرہ میں پڑجاتا ہے۔
الجواب صحیح:
دار العلوم وقف دیوبند