الجواب وباللّٰہ التوفیق:اس صورت میں وہ اسلام سے خارج نہیں ہوا، اگر اسلامی ناموں کو برا اور غیروں کے ناموں کو اچھا سمجھ کر ایسا کرتا ہے تو اندیشہ کفر ہے اور اگرایسا مصلحت کی وجہ سے کیا ہے تو گنجائش ہے مگر ناموں کے معنی اچھے ہونے چاہئے تا ہم اس سے گریز ہی کریں اس میں تشبیہ بالغیر معلوم ہو رہا ہے، بعض علماء تو کفر ہی کے قائل ہیں۔ (۱)
(۱) ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذي یمنع التکفیر فہو مسلم، وإن کانت نیتہ الوجہ الذي یوجب التکفیر لا تنفعہ فتوی المفتي و یؤمر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک وبتجدید النکاح بینہ وبین إمرأتہ، کذا في المحیط۔ (جماعۃ من علماء الہند، الفتاویٰ الہندیہ، ’’کتاب السیر: الباب التاسع: في أحکام المرتدین، موجبات الکفر أنواع، ومنہا: ما یتعلق بتلقین الکفر‘‘: ج ۲، ص: ۲۹۳)
ولا نکفر مسلماً بذنب من الذنوب إن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا إلا نزیل عنہ إسم الإیمان۔ (أبو حنیفۃ رحمہ اللّٰہ، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
الجواب صحیح:
دار العلوم وقف دیوبند