69 views
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت  میں ایک مشورہ لینا چاہتا ہوں میں اسکول میں پڑھائی کرتا تھا میری پڑھائی مکمل ہونے پر مجھے شوق ہوا کہ میں قرآن کا حافظ بنوں میں گھر میں رہتے ہوئے تقریبا آٹھ پارہ کیا ہوا ہےشروع میں مدرسے کا ماحول ٹھیک تھا لیکن اب ہمارے قاری صاحب کافی زیادہ سختی کرتے ہیں جس کی وجہ سے میں کافی ڈسٹرب ہو گیا ہوں اب پڑھائی کے دوران میرے سر میں درد ہو جاتے ہیں اور پہلے کی طرح میں پڑھائی نہیں کر پا رہا ہوں کلاس کے بچوں کو مارتے بہت زیادہ ہے مد کے چھوڑنے پر یا گنا نہ کرنے پراور جتنے دفع غلطی ہو جائے اتنی دفعہ مارا کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں غصہ بھی آتا ہے اور میں کافی زیادہ پریشان ہوں تو میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھے اس مدرسے میں پڑھنا چاہیے
asked Sep 18, 2022 in مساجد و مدارس by Islam Khan

1 Answer

Ref. No. 2047/44-2026

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  بچوں کی تعلیم و تربیت  نہایت اہم اور نیک کام ہے، لیکن اگر نیک کام میں شرعی اصول و ضوابط کی رعایت نہ کی جائے تو وہ نیک کام بھی گناہ کا باعث بن جاتاہے۔ بچوں کی تعلیم  وتربیت میں نرمی و سختی دونوں پہلوؤں میں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اس لئے صورت مسئولہ میں استاذ کا شاگردوں کے ساتھ  حد سے زیادہ مارنا درست نہیں ہے۔ اگر متوجہ کرنے اور سمجھانے پر بھی استاذ مذکور کا یہی معمول رہے تو کسی دوسرے استاذ یا مدرسہ میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں ، لیکن مذکور ہ استاذ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھئے۔

لوضرب المعلم الصبی  ضربا فاحشا فانہ یعزرہ  ویضمنہ لومات (قولہ ضربا فاحشا) قید بہ لانہ لیس لہ ان یضربھا فی التادیب ضربا فاحشا وھو الذی یکسر العظم او یخرق الجلد او یسودہ کما فی التاتارخانیۃ قال فی البحر وصرحوا بانہ اذا ضربھا بغیرحق وجب علیہ التعزیر ای وان لم یکن فاحشا (ردالمحتار 4/79 کتاب الحدود ، باب التعزیر )

روی ان النبی ﷺ قال لمرداس المعلم رضی اللہ عنہ ایاک ان تضرب فوق الثلاث فانک اذا ضربت فوق الثلاث اقتص اللہ منک (الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ 13/13 الضرب للتعلیم)

 واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Nov 3, 2022 by Darul Ifta
...