47 views
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔  حضرات مفتیان کرام میرا سوال یہ ہے کہ    ایک شخص نے منت مانی ہے کہ اگر اسکا لڑکا شفاء پا لے تو اسکو درگاہ میں لے جاءےگا
اب حال یہ ہے کہ اسکے پاس اتنا پیسا نہیں کہ اسکو درگاہ لے جاءے اور اسکا ختنہ بھی کرانا ہے   اور یہاں کے ایک رواج ہےکہ اگر کوئی شخص منت مانے تو اسکو پورا کیے بغیر ختنہ نہیں کرسکتا  تو وہ شخص اب کیا کریں  اس بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے
asked Oct 13, 2022 in متفرقات by Rakibul028

1 Answer

Ref. No. 2080/44-2092

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مذکورہ منت ماننا درست نہیں ہے۔ اس لئے اس کو پورا کرنا بھی ضروری نہیں ہے۔ آپ بلا کسی تردد کے اس کی ختنہ کراسکتے ہیں۔غیرشرعی  رسم و رواج کو فروغ دینے کے بجائے ان کی بیخ کنی کی فکر کرنی چاہئے۔

"ومنها ) أن يكون قربةً فلايصح النذر بما ليس بقربة رأسا كالنذر بالمعاصي بأن يقول : لله عز شأنه علي أن أشرب الخمر أو أقتل فلاناً أو أضربه أو أشتمه ونحو ذلك؛ لقوله عليه الصلاة والسلام: { لا نذر في معصية الله تعالى}، وقوله : عليه الصلاة والسلام: { من نذر أن يعصي الله تعالى فلايعصه }، ولأن حكم النذر وجوب المنذور به، ووجوب فعل المعصية محال، وكذا النذر بالمباحات من الأكل والشرب والجماع ونحو ذلك لعدم وصف القربة لاستوائهما فعلاً وتركاً". ) بدائع الصنائع (10/327(

"مصرف الزكاة والعشر: هو الفقير، وهو من له أدنى شيء". (الدر المختار)وفي الشامية: "وهو مصرف أيضاً لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة" . (شامي ۲/۳۳۹(

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Nov 3, 2022 by Darul Ifta
...