الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ صورت میں ایمان و نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑا(۱)، ایمان و نکاح باقی ہے(۲)۔ تاہم یہ روش ترک کر دینی چاہئے، ورنہ یہ صورت ایمان کے لئے ضرور خطرہ بن سکتی ہے، گناہ تو ہے ہی۔
(۱) ولا نکفر مسلما بذنب من الذنوب وإن کانت کبیرۃ إذا لم یستحلہا، ولا نزیل عنہ إسم الإیمان، ویجوز أن یکون مؤمناً فاسقاً غیر کافر۔ (أبو حنیفۃ -رحمہ اللّٰہ-، شرح الفقہ الأکبر، ’’الکبیرۃ لا تخرج المؤمن عن الإیمان‘‘: ص: ۱۱۷)
والکبیرۃ لا تخرج العبد المؤمن من الإیمان ولا تدخلہ في الکفر…(علامہ سعد الدین تفتازاني، شرح العقائد النسفیۃ، ’’مبحث الکبیرۃ‘‘: ص: ۱۰۶)
دار الافتاء
دار العلوم وقف دیوبند