58 views
(۸۹)سوال:زینب سے گھر والوں نے نماز پڑھنے کو کہا، تو جواب دیا کہ میں نماز نہیں پڑھوں گی نماز پڑھنے سے کیا ہوتا ہے؟ گھر والوں نے کئی بار سمجھایا، مگر وہ یہی جواب دیتی ہے، تو زینب اسلام سے خارج ہوئی یا نہیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد جسیم الدین مظاہری، سہارنپور
asked Dec 11, 2022 in متفرقات by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قانون قدرت ہے کہ انبیاء کی جماعت سخت ترین امتحانوں میں بھی مبتلا کی جاتی ہے۔ پھر امتحان کی بھی اقسام ہیں، ہر بنی کو حق تعالیٰ اپنی حکمت اور اس کی استعداد کے موافق جس قسم کے امتحان میں چاہے مبتلا کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے۔ ’’عن مصعب بن سعد عن أبیہ قال: قلت یا رسول اللّٰہ: أي الناس أشد بلائً؟ قال: الأنبیاء ثم الأمثل فالأمثل‘‘۔(۱) اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کے دل میں یوسف علیہ السلام کی مافوق العادت محبت ڈالدی، یوسف علیہ السلام کو دردناک طریقے سے ان سے جدا کیا گیا، مفسرین لکھتے ہیں: کہ یعقوب علیہ السلام نہ کسی مخلوق کے سامنے حرف شکایت زبان پر لاتے تھے، نہ کسی سے انتقام لیتے، نہ غصہ کرتے، نہ غم کی بات منہ سے نکلتی، انتہائی غم اور تکلیف کے باوجود ادائے فرض وحقوق میں کوئی خلا نہ پڑنے دیا۔ ان کا دل جتنا فراق یوسف میں روتا تھا، اس سے زیادہ خدا کے حضور میں گڑ گڑا تے تھے۔ اسی درد میں یہ کلمات زبان سے ادا ہوئے۔ {إِنَّمَآ أَشْکُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْٓ إِلَی اللّٰہِ} (۲)، اس کی تفسیر میں موضح القرآن میں لکھا ہے۔ کیا تم مجھ کو صبر سکھاؤ گے؟ بے صبر وہ ہے جو مخلوق کے آگے خالق کے دیے ہوئے درد کی شکایت کرے۔ میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور پھر فرمایا: {وَأَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَاتَعْلَمُوْنَہ۸۶} (۳) اور جانتا ہوں اللہ کی طرف سے جو تم نہیں جانتے؛ لہٰذا یعقوب علیہ السلام کے ان الفاظ کو جو کہ قرآن پاک میں بیان کیے۔ اپنے مضمون کے استدلال میں ذکر کرنا، ظاہر کرتا ہے کہ آپ ترجمہ سے واقف نہیں، حدیث وتفسیر پر بھی آپ کی نظر نہیں۔ ایوب علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر طرح کی آسائش وآرام دیا تھا اور وہ بڑے شکر گزار بندے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو آزمائش میں ڈالا، تو جیسے نعمت میں شاکر تھے، بلاء ومصیبت میں بھی شکر گزار رہے۔ اور کسی سے شکوہ نہ کیا اللہ ہی سے ان الفاظ میں اظہار عاجزی کے ساتھ دعا کی {إِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ أَنِّيْ مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ہجصلے ۸۳ }(۴) اس لئے آپ کا اس واقعہ کو بھی استدلال میں یا اپنی بات کی تقویت میں لانا آپ کی لاعلمی کا پتہ دیتا ہے۔ جب نوح علیہ السلام نے سیکڑوں سال قوم کو سمجھایا اور وہ راہ راست پر نہ آئی اور بالکل مایوس ہوگئے اور اللہ کی طرف سے وحی کے ذریعہ بتلادیا گیا کہ جو ایمان لاچکے ان کے سوا کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیںلائے گا، تو کفر اور نافرمانوں کے مٹانے کے لئے اللہ سے التجا کرنی چاہئے تھی کہ قوم میں کفر نہ پھیلے، بلکہ مٹ جائے۔

قرآن پاک میں ہے۔ {وأُوْحِيَ إِلٰی نُوْحٍ أَنَّہٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلَّا مَنْ قَدْ  أٰمَنَ فَلاَ  تَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوْا یَفْعَلُوْنَہجصلے۳۶  } (۱)

ترجمہ: اور وحی بھیجی گئی نوح کے پاس کہ جو ایمان لاچکے ہیں (ان کے سوا) کوئی اور شخص تمہاری قوم میں سے ایمان نہیں لائے گا، سو جوکچھ یہ کر رہے ہیں اس پر غم مت کرو۔ {وَاصْنَعِ  الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا}(۲) (اور ہمارے حکم سے) کشتی تیار کرلو {وَلَا تُخَاطِبْنِيْ فِي الَّذِیْنَ ظَلَمُوْاج إِنَّھُمْ مُّغْرَقُوْنَہ۳۷}(۳) اور مجھ سے کافروں کے بارے میں کوئی گفتگو مت کرنا، وہ سب غرق کیے جائیں گے، تو نوح علیہ السلام نے جو کچھ کیا اور کہا وہ حکم خداوندی کے تحت تھا اور سفارش اور قوم کے لئے دعا کرنے سے روک دیا گیا تھا، تو مذکورہ انبیاء علیہم السلام نے جو کچھ کہا اور کیا وہ سب رضائے الٰہی اور اس کے حکم کے تحت تھا، وہ صبر وتحمل کا پیکر اور دوسروں کے لئے عملی نمونہ تھے۔

آپ کی تحریر سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ آپ مذکورہ عالم کو انبیاء علیہم السلام پر فوقیت دے رہے ہیں۔ اگر آپ کے کلام اور تحریر میں تاویل کی گنجائش نہ ہوتی، تو جو احباب آپ کے کہہ رہے ہیں صحیح ہو جاتا۔

لیکن یہ ضرور کہا جائے گا۔ کہ آپ کا طرز تحریر غلط اور بالکل غلط ہے؛ بلکہ اس کو جرء ت جاہلانہ اور عامیانہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ چاپلوسی پر مبنی ہے جوکہ شرعاً ممنوع ہے جس سے احتراز ضروری ہے۔(۴)

فقط: واللہ اعلم بالصواب

 دار العلوم وقف دیوبند

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد اول ص 169-171)

 

 

answered Dec 11, 2022 by Darul Ifta
...