73 views
السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔
ایسی کمپنی جو پیسے لیکے تجارت کرے اور نفع میں سے دو حصہ خود رکھے ایک حصہ مجھے دے تو اسکو اپنا پیسا دینا کیسا ہے
asked Dec 13, 2022 in متفرقات by صدیق احمد چمپارنی

1 Answer

Ref. No. 2159/44-2234

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ اگر کمپنی کا کاروبار شرعا درست ہے ، اور آپ کا معاملہ مضاربت کا ہے یا شرکت کا واضح ہے اور نفع کے ساتھ نقصان میں بھی شرکت ہے، تو اس طرح فیصدی کے اعتبار سےنفع کی تعیین کے ساتھ معاملہ کرنا درست ہے۔ اور اس میں پیسے لگانا اور نفع کمانا جائز ہے۔

کل شرط یوجب جہالة فی الربح أو یقطع الشرکة فیہ یفسدہا، وإلا بطل الشرط وصح العقد اعتبارا بالوکالة قال الشامي: کشرط الخسران علی المضارب (الدر مع الرد، ۸/ ۴۳۳- ۴۳۴کتاب الشرکة، ط: زکریا دیوبند) و یبطل الشرط کشرط الوضیعة أي الخسران علی المضارب لأن الخسران جزء ہالک من المال فلا یجوز أن یلزم غیرَ رب المال؛ لکنہ شرط زائد لا یوجب قطع الشرکة في الربح ولا الجہالة فیہ فلا یفسد المضاربة؛ لأنہا لا تفسد بالشروط الفاسدة․ (مجمع الأنہر: ۳/ ۴۴۷، ط: فقیہ الأمت دیوبند) (کذا في تبیین الحقائق: ۵/ ۵۲۱، المضاربة، ط: زکریا دیوبند)

في مصنف عبد الرزاق ومصنف ابن أبي شیبہ عن علي رضي اللہ عنہ: الوضیعة علی المال والربح علی ما اصطلحوا علیہ فیتقدر بقدر المال (کنز العمال: ۱۵/ ۱۷۶رقم: ۴۰۴۸۲) إذا شرطا الربح علی قدر المالین متساویا أو متفاضلا فلا شک أنہ یجوز ویکون الربح علی الشرط․․․ والوضیعة علی قدر المالین متساویا ومتفاضلا لأن الوضیعة اسم لجزء ہالک من المال فیتقدر بقدر المال․ (بدائع الصنائع: ۵/ ۸۳الشرکة، ط زکریا دیوبند۔ ۷/ ۵۲۳الشرکة ط: دار المعارف دیوبند․ ثم یقول أي الإمام محمد رحمہ اللہ فما کان من ربح فہو بینہما علی قدر روٴس أموالہما وما کان من وضیعة أو تبعة فہو کذلک․ ولا خلاف أن اشتراط الوضیعة بخلاف قدر رأس المال باطل (فتح القدیر: ۶/ ۱۴۶الشرطة ط: زکریا دیوبند)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Dec 18, 2022 by Darul Ifta
...