109 views
اگر کوئی شخص بالکل تنہائی میں مثلاً بیت الخلاء میں جہاں بیوی تو کیا کوئی اور شخص بھی نہیں اور نہ بیوی کو طلاق دینے کی کوئی بات چل رہی ہو اور نہ ہی بیوی کی طرف اشارہ ہو اور نہ بیوی کی طرف کوئی ضمیر راجع کرے ، ایسی صورت حال میں اگر وہ شخص وقوع طلاق کی نیت سے محض اتنا کہے " طلاق ، طلاق ، طلاق " تو کیا طلاق واقع ہوگی ؟ آپ کی بیان کردہ عبارت کے مطابق جہاں تک نبدے کا خیال ہے طلاق واقع نہیں ہونی چاہیے کہ الفاظ تو ہیں لیکن نہ صراحة نسبت الی الزوجہ ہے اور نہ دلالة ۔ خیر آپ کے علم کے مطابق  جو جواب ہو وہ جواب بندے کو مطلوب ہے ۔
asked Dec 16, 2022 in طلاق و تفریق by Kamil zakir nakum

1 Answer

Ref. No. 2161/44-2253

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ صرف الفاظ طلاق کا تکلم کرنے سے جبکہ کسی طرح بھی بیوی کی طرف نسبت نہیں ہے ، کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔  طلاق کے وقوع کے لئے صراحۃً، دلالۃً یا اشارۃً بیوی کی طرف  نسبت کا ہونا ضروری ہے۔

لكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها‘‘. (فتاوی 3/250، کتاب الطلاق، ط؛ سعید)

"الدر المختار " (3/ 247):

"باب الصريح (صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها".

قال ابن عابدین رحمہ اللہ ":(قوله: لتركه الإضافة) أي المعنوية فإنها الشرط والخطاب من الإضافة المعنوية، وكذا الإشارة نحو هذه طالق، وكذا نحو امرأتي طالق وزينب طالق. اهـ.

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Dec 27, 2022 by Darul Ifta
...