81 views
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ۔
ہمارے ملک  برطانیہ میں بہت ساری جگہوں پر اب جنازہ کی نماز مسجد کے اندر ادا کی جا  رہی ہے، اور اس کے لئے ان کے پاس بظاہر کوئی شرعی عذر یا مجبوری نہیں ہے۔
اس سلسلے میں ایک طالب علمانہ سوال ہے کہ جب نماز جنازہ  کا مقصد مرحوم کی مغفرت کے لئے سفارش کرنا ہے تو کیا بلا کسی مجبوری کے مسجد کے اندر نماز جنازہ پڑھ کر کراہیت والے کام کا ارتکاب کرنا مناسب ہے؟ ایک طرف تو ہم اللہ تعالی سے سفارش کر رہے ہیں کے آپ میت کی مغفرت کیجئے لیکن سفارش کرتے ہوئے ایسے کام کر رہے ہیں جو اللہ تعالی کو نا پسند ہو؟
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس سلسلے میں، نماز جنازہ کو بلا مجبوری مسجد میں ادا کریں تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
asked Jan 12, 2023 in نماز / جمعہ و عیدین by محمد راجا

1 Answer

Ref. No. 2202/44-2316

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا شوافع کے یہاں درست ہے، البتہ احناف کے یہاں بلاکسی مجبوری کے مسجد میں جنازہ کی نماز مکروہ ہے۔ نبی علیہ السلام کا معمول یہی تھا کہ آپ مسجد کے باہر کھلی جگہ میں نماز جنازہ ادافرماتے تھے،  ایک بار آپﷺ اعتکاف میں تھے یا بارش کی بناء پر آپ نے مسجد میں جنازہ کی نماز پڑھی ہے لیکن عام معمول آپ کا یہ نہیں تھا۔ اس لئے کوشش یہی ہو کہ مسجد کے باہر کسی ہال میں یاکسی کھیل کے میدان میں یا عیدگاہ میں نماز جنازہ اداکریں ، اور اگر کوئی ایسی جگہ میسر نہیں ہے تو مسجد میں نماز جنازہ کی  گنجائش ہوگی۔ تاہم آپ کے علاقہ کے علماءکا  اس سلسلہ میں جو موقف ہو اسی کوترجیحا اختیار کیاجائے ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 225)

"(واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقًا خلاصة، بناء على أن المسجد إنما بني للمكتوبة، وتوابعها كنافلة وذكر وتدريس علم، وهو الموافق لإطلاق حديث أبي داود «من صلى على ميت في المسجد فلا صلاة له»

أن الصلاة على الميت فعل لا أثر له في المفعول، وإنما يقوم بالمصلي، فقوله من صلى على ميت في مسجد يقتضي كون المصلي في المسجد سواء كان الميت فيه أو لا، فيكره ذلك أخذا من منطوق الحديث، ويؤيده ما ذكره العلامة قاسم في رسالته من أنه روي «أن النبي صلى الله عليه وسلم لما نعى النجاشي إلى أصحابه خرج فصلى عليه في المصلى» قال: ولو جازت في المسجد لم يكن للخروج معنى اهـ مع أن الميت كان خارج المسجد.
وبقي ما إذا كان المصلي خارجه والميت فيه، وليس في الحديث دلالة على عدم كراهته لأن المفهوم عندنا غير معتبر في غير ذلك، بل قد يستدل على الكراهة بدلالة النص، لأنه إذا كرهت الصلاة عليه في المسجد وإن لم يكن هو فيه مع أن الصلاة ذكر ودعاء يكره إدخاله فيه بالأولى لأنه عبث محض ولا سيما على كون علة كراهة الصلاة خشيت تلويث المسجد.
وبهذا التقرير ظهر أن الحديث مؤيد للقول المختار من إطلاق الكراهة الذي هو ظاهر الرواية كما قدمناه، فاغتنم هذا التحرير الفريد فإنه مما فتح به المولى على أضعف خلقه، والحمد لله على ذلك."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 224):

"(وكرهت تحريمًا) وقيل: (تنزيهًا في مسجد جماعة هو) أي الميت (فيه) وحده أو مع القوم. (واختلف في الخارجة) عن المسجد وحده أو مع بعض القوم (والمختار الكراهة) مطلقا خلاصة." وفی الرد: "(قوله: مطلقًا) أي في جميع الصور المتقدمة كما في الفتح عن الخلاصة."

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 226): "إنما تكره في المسجد بلا عذر، فإن كان فلا، ومن الأعذار المطر كما في الخانية."

الفتاوى الهندية (1/ 165):

"والصلاة على الجنازة في الجبانة والأمكنة والدور سواء، كذا في المحيط وصلاة الجنازة في المسجد الذي تقام فيه الجماعة مكروهة سواء كان الميت والقوم في المسجد أو كان الميت خارج المسجد والقوم في المسجد أو كان الإمام مع بعض القوم خارج المسجد والقوم الباقي في المسجد أو الميت في المسجد والإمام والقوم خارج المسجد هو المختار، كذا في الخلاصة."

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jan 17, 2023 by Darul Ifta
...