الجواب وباللّٰہ التوفیق:تقدیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کرکے اچھے برے کام کرنے کا اختیار دیدیا ہے، اپنی مرضی سے اچھا کام کریں یا برا کام کریں؛ لیکن چوںکہ اللہ تعالیٰ کو پہلے سے علم ہے کہ کیا کرے گا اس لئے اس کو پہلے سے ہی لکھ دیا، بندہ کسی کام پر مجبور نہیں ہے۔ لہٰذا جب انسان خود کو مارنے کی سعی و کوشش کرتا ہے تو چوں کہ یہ کوشش اس نے اپنے اختیار سے کی اس لئے سزا کا مستحق ہوگا، ہر گناہ و اچھائی کا یہی معاملہ ہے کہ سعی بندہ کرتا ہے، جیسی وہ کوشش کرتا ہے ویسا ہی نتیجہ اللہ مرتب فرما دیتے ہیں۔ اور اس سعی پر اس کو گناہ یا ثواب ملتا ہے۔(۱)
۱) وللعباد أفعال اختیاریۃ یثابون بہا ویعاقبون علیہا إن کانت معصیۃ لا کما زعمت الجبریۃ أنہ لا فعل للعبد أصلاً۔ (علامہ تفتازانی، شرح عقائد، ’’مبحث: الأفعال کلہا بخلق اللّٰہ والدلیل علیہا‘‘: ص: ۸۱)
عن أبي ہریرۃ -رضي اللّٰہ عنہ- قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر، فغضب حتی إحمر وجہہ حتی کأنما فُقِئ في وجنتیہ حب الرمان، فقال: أ بہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر عزمت علیکم أن لاتنازعوا فیہ۔ (ملا علی قاری مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الثاني‘‘: ج ۱، ص: ۲۷۷ رقم: ۹۸)
(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 1 ص 185)