265 views
قضاء اور قدر سے متعلق سوال کرنا کیسا ہے؟
(۳)سوال:سلام مسنون!
حضرات مفتیان کرام: قضاء اور قدر کے ما بین فرق کیا ہے؟ نیز قضاء وقدر میں غور وفکر کرنا کیسا ہے؟ ہمارے امام صاحب اس بارے میں بحث ومباحثہ کرنے سے منع کرتے ہیں کیا ان کا منع کرنا صحیح ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد جاوید علی، بہار
asked Jan 16, 2023 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:قضاء کے معنی فیصلہ کرنا، ادا کرنا، اور انجام دینا ہے۔ اس سے مراد وہ اصول اور قوانین فطرت ہیں جن کے تحت یہ کار خانۂ قدرت وجود میں لایا گیا، قدر اور تقدیر کے معنی ہیں اندازہ کرنا، طے کرنا اور مقرر کرنا ہے (۱) جن امور کا اللہ تعالیٰ ازل میں فیصلہ کر چکا ہے اور جن پر اللہ تعالیٰ کا حکم لگ چکا اسی کو شریعت میں قضاء وقدر سے بھی تعبیر کرتے ہیں، تقدیر کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا میں جو کچھ اب تک ہوا ہے اور آئندہ ہونے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اندازے اور فیصلۂ ازل کے مطابق ہے، ہر چیز اسی کے ارادہ اور حکم کے تحت وقوع پزیر ہوتی ہے، اس کی مرضی ومشیت کے خلاف ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا ہے، ہر چیز کو اللہ تعالیٰ نے ہی پیدا کیا اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے، نیز قضاء وقدر میں فرق یہ ہے کہ احکام اجمالیہ کلیہ جو ازل میں ہیں وہ قضاء ہے اوراحکام جزئیہ تفصیلہ ہیں جو کلی کے موافق ہوں وہ قدر ہے، قضاء اور قدر ’’سر من أسرار اللّٰہ‘‘ میں سے ہیں جس کی پوری حقیقت کی اطلاع نہ کسی مقرب فرشتہ کو دی گئی اور نہ کسی نبی اور رسول کو؛ اس لئے اس میں زیادہ بحث ومباحثہ اور غور وفکر کرنا عام آدمی کے لئے درست نہیں، حدیث پاک میں اس پر بحث ومباحثہ کرنے سے سخت ممانعت آئی ہے۔

’’عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ عنہ، قال: خرج علینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ونحن نتنازع في القدر فغضب حتی إحمر وجہہ حتی کأنما فقیء في وجنتیہ الرمان، فقال: أ بہذا أمرتم أم بہذا أرسلت إلیکم؟ إنما ہلک من کان قبلکم حین تنازعوا في ہذا الأمر عزمت علیکم ألا تنازعوا فیہ‘‘(۲)

جہاں تک قرآن وحدیث میں اجمالاً مذکور ہے اسی پر ایمان لانا چاہئے کما حقہ اس کو سمجھنا انسانی طاقت وعقل سے باہر ہے، اسی کی طرف حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اشارہ فرمایا: جب ایک سائل نے

 ان سے اس بارے میں دریافت کیا۔

’’سأل (رجل) علي بن أبي طالب رضي اللّٰہ عنہ، فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طریق مظلم لا تسلکہ، وأعاد السوال، فقال: بحر عمیق لا تلجہ، فأعاد السوال، فقال: سر اللّٰہ قد خفي علیک فلا تفتشہ وللّٰہ در من قال‘‘(۱) لہٰذا اس کے بارے میں بحث ومباحثہ سے پرہیز کرنا چاہئے۔

۱) راغب أصفھاني، المفردات: ج۱، ص:۶۰۴، ۷۰۴

(۲)  أخرجہ الترمذي، في سننہ، ’’أبواب القدر، باب ما جاء من  التشدید في الخوض في القدر، باب منہ‘‘: ج ۴، ص:

۴۴۳رقم: ۲۱۳۴)

(۳) أیضاً:، رقم: ۲۱۳۳۔

۱) ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹۔

وعن عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا، قالت: سمعت رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم- یقول: من تکلم في شيء من القدر سئل عنہ یوم القیامۃ، ومن لم یتکلم فیہ لم یسأل عنہ، رواہ ابن ماجہ۔ (أیضاً:، الفصل الثالث‘‘: ج ۱، ص: ۲۹۳، رقم: ۱۱۴)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند جلد 1 ص 186)

 

answered Jan 16, 2023 by Darul Ifta
...