76 views
کیا ماں کے پیٹ میں بچہ کے جنتی یا دوزخی
 ہونے کے بارے میں لکھدیا جاتا ہے؟
(۵)سوال:ایک شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ ماں کے پیٹ میں بچہ کے لئے جنتی دوزخی ہونا لکھ دیتے ہیں اور وہ بچہ اس لکھے ہوئے کے مطابق آخر میں جنتی ہونے یا دوزخی ہونے کے کام ضرور کرتا ہے۔ اس آدمی سے کہا گیا کہ ایسا مت کہو بلکہ بات یوں ہے کہ تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے ایک تو نہیں بدلتی اور دوسری بدلتی ہے کہ ہر سال اللہ تعالیٰ شب برات میں فیصلہ کرتے ہیں ہر ایک کے اعمال کے مطابق، حکم شریعت کیا ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: امیر تحسین، مظفرنگر
asked Jan 16, 2023 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

 

الجواب وباللّٰہ التوفیق:بچہ جب رحم مادر میں ہوتا ہے تو حسب وضاحت مفسرین و متکلمین اس کے شقی و سعید یعنی جنتی و جہنمی ہونے کے متعلق لکھ دیا جاتا ہے اور اسی کے مطابق ہوتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ بندہ کو مجبور محض کردیا جاتا ہو کہ وہ جو چاہے کرے جہنمی ہی ہوگا اس کا عمل کارآمد نہ ہوگا بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ جو کام ہوگا اللہ تعالیٰ کو اس کے بارے میں پورا علم ہے کہ بندہ دنیا میں کیا کرے گا۔

اچھے کام کرے گا یا برے کام کرے گا اس کا علم خدا تعالیٰ کو بدرجہ اتم ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو اختیار دیا ہے کہ وہ جو چاہے کرے اپنی عقل وسمجھ سے برے کام کرے یا بھلے، جنت حاصل کرنے کے لئے عبادت و ریاضت کرے یا جہنم کی طرف لے جانے والے کفر وشرک یا گناہ کا ارتکاب کرے بندہ کو اس میں پورا اختیار ہے وہ جو بھی کرنے کا ارادہ کرے گا اس کو اس کے لئے سہل کردیا جائے گا لیکن بندہ اپنے اختیار سے اچھا برا جوبھی کرے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم پہلے سے ہے؛ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو پہلے ہی لکھ دیا اور اللہ تعالیٰ کے علم میں جہل و خطاء کا شائبہ بھی ممکن نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے باخبر ہوتے ہوئے جو لکھ دیا ہے وہی ہوگا الحاصل بندہ مجبور محض نہیں یہ معمولی  وضاحت آپ کے سمجھنے کے لیے کردی گئی ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیر کے مسئلہ پر بہت زیادہ تفصیل کو پسند نہیں فرمایا ہے اور اگر آپ طالب علم ہیں تو معتبر کتابوں کا مطالعہ کریں۔(۱)

۱) سأل (رجل) علي بن أبي طالب، فقال: أخبرني عن القدر؟ قال: طریق مظلم لا تسلکہ وأعاد السوال، فقال: بحر عمیق لا تلجہ، فأعاد السوال، فقال: سر اللّٰہ قد خفي علیک فلا تفتشہ وللّٰہ در من قال۔(ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’کتاب الإیمان: باب الإیمان بالقدر، الفصل الأول‘‘: ج ۱، ص: ۲۴۰، رقم: ۷۹)

وعن سہل بن سعد رضي اللّٰہ عنہ، قال: قال رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-: إن العبد لیعمل عمل أہل النار، وإنہ من أہل الجنۃ، ویعمل عمل أہل الجنۃ، وإنہ من أہل النار، وإنما الأعمال بالخوا تیم، متفق علیہ۔ (أیضاً:‘‘: ج ۱، ص: ۲۵۰رقم: ۸۳)

وعن ابن مسعود رضي اللّٰہ عنہ، قال: حدثنا رسول اللّٰہ -صلی اللّٰہ علیہ وسلم-، وہو الصادق المصدوق: إن خلق أحدکم یجمع في بطن أمہ أربعین یوما نطفۃ، ثم یکون علقۃ مثل ذلک، ثم یکون مضغۃ مثل ذلک، ثم یبعث اللّٰہ إلیہ ملکا بأربع کلمات: فیکتب عملہ، وأجلہ، ورزقہ، وشقيّ، أو سعید، ثم ینفخ فیہ الروح، فوالذي لا إلہ غیرہ إن أحدکم لیعمل بعمل أہل الجنۃ حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع، فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل النار فیدخلہا۔ وإن أحدکم لیعمل بعمل أہل النار حتی ما یکون بینہ وبینہا إلا ذراع فیسبق علیہ الکتاب، فیعمل بعمل أہل الجنۃ فیدخلہا، متفق علیہ۔ (أیضاً: ج ۱، ص: ۲۴۵، رقم: ۸۲)

(فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1 ص190)

 

answered Jan 16, 2023 by Darul Ifta
...