77 views
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ حضرت مفتی صاحب  جیسا کہ میں نے یہ مسئلہ پوچھا تھا پہلے بھی
کی مجھے پیشاب کی بیماری ہے  میرے ساتھ حالت یہ ہے کہ پورے 24 گھنٹے میں پیشاب عظو تناسل کے اندر رہتا ہے اور پیشاب اتنا بھی باہر 24 گھنٹے میں نہیں نکلتا جو بہنیں کے قابل ہو سکے تقریبا مجھے تین سالوں سے یہ بیماری ہے اور میں نے پورے تشفی کے ساتھ استبراء کیا ہے لیکن بھی پیشاب کا   عضوتناسل میں رہنا بند نہ ہوا اور ایک عالم صاحب بتا رہے تھے کہ جب تک پیشاب باہر نکل کے بہہ نہ  جائے تب تک وضو نہیں ٹوٹتا اب مجھے یہ بتائیں کہ کیا میں معذور میں داخل ہوں اور میرے لئے امامت کا کیا مسئلہ ہے
asked Jan 16, 2023 in طہارت / وضو و غسل by Aalameen

1 Answer

Ref. No. 2208/44-2327

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔  اگر عضو کے سرے پر قطرہ نہ ہو، تو نالی میں تری موجود ہونے سے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑتاہے، اس لئے اگر عضو کے سرے پر پیشاب نہ ہو تونالی کو دباکر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے جبکہ آپ نے استبراء ایک بار کرلیا ہے۔ تاہم اگر دباکر دیکھا اور اندر کی رطوبت نالی کے سرے پر باہر آگئی تو وضو جاتارہا۔ اس لئے آپ معذور شمار نہیں ہوں گے اور امامت کرنے کی اجازت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 135):

"ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور وفي غيرهما عين السيلان ولو بالقوة.

 (قوله: مجرد الظهور) من إضافة الصفة إلى الموصوف: أي الظهور المجرد عن السيلان، فلو نزل البول إلى قصبة الذكر لاينقض لعدم ظهوره، بخلاف القلفة فإنه بنزوله إليها ينقض الوضوء، وعدم وجوب غسلها للحرج، لا لأنها في حكم الباطن كما قاله الكمال ط".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 148):

"(كما) ينقض (لو حشا إحليله بقطنة وابتل الطرف الظاهر) هذا لو القطنة عالية أو محاذية لرأس الإحليل وإن متسفلة عنه لاينقض، وكذا الحكم في الدبر والفرج الداخل (وإن ابتل) الطرف (الداخل لا) ينقض ولو سقطت؛ فإن رطبه انتقض، وإلا لا.

 (قوله: إحليله) بكسر الهمزة مجرى البول من الذكر بحر (قوله: هذا) أي النقض بما ذكر، ومراده بيان المراد من الطرف الظاهر بأنه ما كان عالياً عن رأس الإحليل أو مساوياً له: أي ما كان خارجاً من رأسه زائداً عليه أو محاذياً لرأسه لتحقق خروج النجس بابتلاله؛ بخلاف ما إذا ابتل الطرف وكان متسفلاً عن رأس الإحليل أي غائباً فيه لم يحاذه ولم يعل فوقه، فإن ابتلاله غير ناقض إذا لم يوجد خروج فهو كابتلال الطرف الآخر.الذي في داخل القصبة (قوله: والفرج الداخل) أما لو احتشت في الفرج الخارج فابتل داخل الحشو انتقض، سواء نفذ البلل إلى خارج الحشو أو لا للتيقن بالخروج من الفرج الداخل وهو المعتبر في الانتقاض لأن الفرج الخارج بمنزلة القلفة، فكما ينتقض بما يخرج من قصبة الذكر إليها وإن لم يخرج منها كذلك بما يخرج من الفرج الداخل إلى الفرج الخارج وإن لم يخرج من الخارج اهـ شرح المنية (قوله: لاينقض) لعدم الخروج (قوله: ولو سقطت إلخ) أي لو خرجت القطنة من الإحليل رطبة انتقض لخروج النجاسة وإن قلت، وإن لم تكن رطبة أي ليس بها أثر للنجاسة أصلاً فلا نقض"

 واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:محمد اسعد

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Jan 19, 2023 by Darul Ifta
...