70 views
ہماری مسجد کی اراضی کل ۵۰۰ گج ہے
 ۳۰۰ گج میں مسجد بنی ہوئی ہے۔
 ۱۰۰گج میں دائیں طرف لیٹرین باتھ روم اور ۱۰۰ گج میں بائیں طرف مسجد کی دُکانیں ہیں جو کرائے پر چل رہی ہیں مسجد کو شہید کر کے کشادہ کیا گیا ہے  اور دائیں  بائیں  کی جو ۱۰۰-۱۰۰ گج جگہ تھی اسکو  بھی مسجد میں شامل کر لیا گیا ہے۔۔ کیونکہ مسجد کی کرسی ایک منزل اونچائی پر ہے اسلیے ابھی بھی بائیں طرف دکانوں کی چھت پر مسجد ہے اور دائیں طرف ہال کے اوپر مسجد ہے
 اب معلوم یہ کرنا ہے کہ
١-جو جگہ بعد میں مسجد میں شامل کی گئی ہے وہاں نماز پڑھنے کا ثواب اصل مسجد والا ہی ملےگا یا نہیں ؟؟
٢-ایک شخص بعد میں شامل کی گئی دائیں  بائیں کی جگہ میں نماز نہیں پڑھتا اور صف پوری کرے بغیر دوسری صف میں کھڑا ہو جاتا ہے اس عمل کا کیا حکم ہے؟؟  نیز جگہ نہ ملنے پر کبھی کبھی دوسری مسجد میں نماز ادا کرنے چلا جاتا ہے اس طرح دوسری مسجد میں نماز ادا کرنے جانا کیسا ہے ؟؟
asked Jan 28, 2023 in اسلامی عقائد by MEHTAB ALAM

1 Answer

Ref. No. 2222/44-2366

بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ مسجد کی تعمیر کے وقت ہی مسجد کی زمین کے بعض حصے کو مسجد میں نماز کے لئے اور بعض کو مصالح مسجد کے لئے مختص کیاگیا تھا، بعد میں وضو خانہ والی جگہ کے اوپری حصہ کو مسجد میں نماز کے لئے شامل کرلیا گیا اور اسی طرح دوکانوں کے اوپری حصہ کو بھی مسجد میں شامل کرلیا گیا  ہے۔ یہ تمام جگہیں مسجد ہی ہیں، اس لئے دائیں بائیں حصہ میں نماز پڑھنا مسجد ہی کا ثواب رکھتاہے، اور اس حصہ میں نماز پڑھنے والا مسجد کا پورا ثواب پانے والا ہوگا۔ اور  جب اس حصہ کو مسجد میں شامل کرلیا گیا اور صف کا ایک حصہ بن گیا تو اس صف کو پورا کرکے ہی پچھلی صف میں کھڑا ہونا چاہئے یا اوپر کی منزل میں جانا چاہئے۔ مسجد انتظامیہ جس حصہ کو نماز کے لئے متعین کردے اس کا حکم مسجد کاہوگا، اور جس حصہ کو مسجد کے مصالح  کے لئے رکھے اس میں مسجد کے احکام جاری نہیں ہوں گے، تاہم  وہ حصہ بھی وقف ہے، اس لئے اس حصہ میں بھی مسجد کے تقدس کے خلاف کوئی کام کرنا جائز نہیں ہوگا۔   

الدر المختار مع رد المحتار: (355/4، ط: الحلبي)
(
ويزول ملكه عن المسجد، والمصلى) بالفعل و (بقوله جعلته مسجدا) عند الثاني (وشرط محمد) والإمام (الصلاة فيه) بجماعة وقيل: يكفي واحد وجعله في الخانية ظاهر الرواية.
(
قوله بالفعل) أي بالصلاة فيه ففي شرح الملتقى إنه يصير مسجدا بلا خلاف، ثم قال عند قول الملتقى، وعند أبي يوسف يزول بمجرد القول ولم يرد أنه لا يزول بدونه لما عرفت أنه يزول بالفعل أيضا بلا خلاف اه. مطلب في أحكام المسجد قلت: وفي الذخيرة وبالصلاة بجماعة يقع التسليم بلا خلاف، حتى إنه إذا بنى مسجدا وأذن للناس بالصلاة فيه جماعة فإنه يصير مسجدا اه ويصح أن يراد بالفعل الإفراز۔۔۔۔إلخ

الدر المختار و حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"[فرع] لو بنى فوقه بيتا للإمام لا يضر لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع ولو قال عنيت ذلك لم يصدق تتارخانية، فإذا كان هذا في الواقف فكيف بغيره فيجب هدمه ولو على جدار المسجد، ولا يجوز أخذ الأجرة منه ولا أن يجعل شيئا منه مستغلا ولا سكنى بزازية۔۔(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي)"

وفي الرد:"(قوله: أما لو تمت المسجدية) أي بالقول على المفتى به أو بالصلاة فيه على قولهما ط وعبارة التتارخانية، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا بترك اهـ وبه علم أن قوله في النهر، وأما لو تمت المسجدية، ثم أراد هدم ذلك البناء فإنه لا يمكن من ذلك إلخ فيه نظر؛ لأنه ليس في عبارة التتارخانية ذكر الهدم وإن كان الظاهر أن الحكم كذلك (قوله: فإذا كان هذا في الواقف إلخ) من كلام البحر والإشارة إلى المنع من البناء (قوله: ولو على جدار المسجد) مع أنه لم يأخذ من هواء المسجد شيئا. اهـ. ط ونقل في البحر قبله ولا يوضع الجذع على جدار المسجد وإن كان من أوقافه. اهـ.

ويكره الوضوء والمضمضمة( والمضمضة )في المسجد إلا أن يكون موضع فيه اتخذ للوضوء ولا يصلی فيه۔(البحر الرائق،كتاب الصلوة ،باب مايفسد الصلوة  وما يكره فيها ج2ص61)

واللہ اعلم بالصواب

دارالافتاء

دارالعلوم وقف دیوبند

 

answered Feb 5, 2023 by Darul Ifta
...