75 views
زیارتِ قبور اور عورتوں کا قبرستان جانے کا حکم:
(۸۵)سوال:قبروں کی زیارت اور قبرستان جانا جائز ہے یا نہیں؟ کیا عورتوں کو جانے کی اجازت ہے؟ شریعت کیا کہتی ہے؟ بعض علماء مثلاً ابن حزم نے تو واجب کہا ہے کہ زندگی میں ایک بار جانا واجب ہے، امام شعبیؒ نے منع فرمایا ہے۔ مدلل مفصل جواب عنایت فرمائیں؟
فقط: والسلام
المستفتی: ماہ عالم، کانپور
asked Jun 5, 2023 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:عینی ج۴ ص ۷۶، فتح الملہم ص ۸۱۱ و بذل الجہود ج۲ ص ۲۱۴ میں ہے کہ ابن حزم نے زیارت القبور کو زندگی میں ایک مرتبہ واجب کہا ہے؛ کیونکہ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں صیغہ امر ہے جو وجوب کے لئے ہے۔
’’قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نہیتکم عن زیارۃ القبور ألافزوروہا‘‘(۱) محی السنہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ عبدربہ رحمۃ اللہ علیہ اور مازنی رحمۃ اللہ علیہ نے مردوں کے لیے زیارت قبور کے لیے جواز پر تمام اہل علم اور ائمہ دین کا اتفاق نقل کیا ہے لیکن امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ نے ابن سیرین، امام نخعی اور امام شیبہ رحمہم اللہ سے مردوں کے لئے زیارت قبور کی کراہت نقل کی ہے۔ ان کی دلیل بھی مسلم کی روایت ہے جس میں ’’نہیتکم‘‘ فرماکر منع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جن محدثین اور اہل علم کے یہاں مردوں کے لئے زیارت قبور کی اجازت ہے ان کے پاس دلیل میں بہت سی حدیثیں ہیں۔ مثلاً اوپر والی حدیث ہی ہے کہ ابتدائے اسلام میں منع فرمایا گیا، پھر اجازت دیدی گئی ہے۔ ایسے ہی مسلم میں روایت ہے ’’قال کان النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلمہم إذا خرجوا إلی المقابر السلام علی الدیار‘‘ (۲) اور ابن ماجہ میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ’’عن عائشۃ -رضي اللّٰہ عنہا- أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رخص في زیارۃ القبور‘‘(۳) اس قسم کی بہت سی حدیثیں ہیں جن سے جواز ثابت ہے۔
ابن حزم نے جو واجب کہہ دیا تو وہ صحیح نہیں ہے؛ کیونکہ اصول میں یہ بات طے شدہ ہے کہ حکم نہی ممانعت کے بعد واجب کو ثابت نہیں کرسکتا صرف اباحت اور جواز ہی ثابت ہوسکتا ہے ۔ امام نخعیؒ اور شعبیؒ نے جومکروہ فرمایا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو وہ تمام حدیثیں نہیں پہونچی جن سے ممانعت کے بعد جواز ثابت ہوتا ہے جیسا کہ علامہ عینی اور صاحب فتح الباری اور صاحب بذل نے فرمایا ہے۔ علامہ عینی کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ بت پرستی چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے اور وہ قبروں کا غیر ضروری احترام کرتے تھے؛ اس لیے ابتدائے اسلام میں زیارت قبور سے منع فرمایا گیا ہے جب اسلام کی محبت راسخ ہوگئی اور بت پرستی سے نفرت ہوگئی تو وہ حکم منسوخ ہوگیا۔(۴)

حاصل یہ ہے کہ گاہے بگاہے عبرت اور موت کو یاد کرنے کے لئے قبرستان جانا جائز ہے، عورتوں کی زیارت قبور سے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے: بعض اہل علم کے یہاں عورت کا قبرستان جانا مکروہ ہے۔ ان کی دلیل حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہے کہ آپ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے ’’لعن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم زوارات القبور‘‘(۱) لیکن اکثر اہل علم نے کہا ہے کہ اگر فتنہ دین ودنیا نہ ہو تو عورتوں کو اجازت ہے۔ مسلم میں روایت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’کیف أقول یا رسول اللّٰہ إذا زرت القبور؟ قال علیہ السلام: قولي السلام علی أہل الدیار من المؤمنین والمسلمین‘‘(۲) ایسے ہی مسند حاکم میں روایت ہے کہ حضرت فاطمہؓ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرتی تھیں۔(۳)
امام قرطبی نے کہا ہے کہ جن روایات میں ممانعت آئی ہے وہاں صیغہ مبالغہ کا ہے ’’زوارات القبور‘‘ یعنی جو بکثرت زیارت کرتی ہوں تو کثرت سے عورتوں کا جانا ممنوع ومکروہ ہے ورنہ اجازت ہے۔ یا عورتوں میں جزع وفزع کا معاملہ زیادہ ہے صبر کم ہے، حقوق زوجیت بھی متاثر ہوتے ہیں(۴) اگر دینی اور دنیاوی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، تو شرعی حدود میں رہ کر زیارت قبور کی جاسکتی ہے؛ لیکن فی زمانہ عورتیں قبرستان میں جاکر بدعت کرتی ہیں، اور ایسی خرافات اور واہیات حرکتیں کرتی ہیں جن سے دین کو نقصان پہونچتا ہے، بے پردگی اور بے آبروئی کے اندیشے اپنی جگہ الگ ہیں؛ اس لئے انتظام اور احتیاط کی بات یہ ہی ہے کہ عورتوں کو قبرستان نہ جانے دیا جائے۔(۵)

(۱) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل في جواز زیارۃ قبور المشرکین‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۷)
(۲) قد سبق تخریجہ۔
(۳) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الجنائز: باب ما جاء في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۲، رقم: ۱۵۷۰۔
(۴) إن زیارۃ القبور إنما کان في أول الإسلام عند قربہم بعبادۃ الأوثان واتخاذ القبور مساجد، فلما استحکم الإسلام وقوی في قلوب الناس وآمنت عبادۃ القبور والصلوٰۃ إلیہا نسخ النہي عن زیارتہا الخ۔ (العیني، عمدۃ القاري، ’’باب قول النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘: ج ۸، ص: ۷۰)

(۱) أخرجہ ابن ماجہ، في سننہ، ’’أبواب الجنائز، باب ما جاء في النہي عن زیارۃ النساء القبور‘‘: ج ۱، ص: ۱۱۳، رقم: ۱۵۷۴۔
(۲) أخرجہ مسلم، في صحیحہ، ’’کتاب الجنائز: فصل فی جواز زیارۃ قبور المشرکین‘‘: ج ۱، ص: ۳۱۴، رقم: ۹۷۴۔
(۳) أن الرخصۃ ثابتۃ للرجال والنساء لأن السیدۃ فاطمۃ رضي اللّٰہ عنہا کانت تزور قبر حمزۃ کل جمعۃ وکانت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا تزور قبر أخیہا عبد الرحمٰن بمکۃ کذا ذکرہ البدر العیني في شرح البخاري۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج ۱، ص:۶۲۰)
(۴) الزیارۃ لقلۃ صبرہن وجرعہن۔ (ملا علي قاري، مرقاۃ المفاتیح، ’’باب زیارۃالقبور‘‘: ج ۲، ص: ۴۰۴)
(۵) وأما النساء إذا أردن زیارۃ القبور إن کان ذلک التجدید الحزن والبکاء والندب کما جرت بہ عادتہن لا تجوز لہن الزیارۃ۔ (الطحطاوي، حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في زیارۃ القبور‘‘: ج۱: ۶۲۰)



فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص386

answered Jun 5, 2023 by Darul Ifta
...