37 views
عورت کے انتقال پر میکے والوں کی طرف سے کفن کو لازم سمجھنا:
(۱۰۱)سوال:کسی عورت کا انتقال ہو جاتا ہے اس کے کفن کا انتظام اس کے والد یا اس کے بھائی کی جانب سے ہوتا ہے، اس کو ضروری سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کی سسرال کی جانب سے کفن کا چرچا بھی نہیں ہوتا ہے، اس کے برادر وغیرہ ہی کے بھروسے پر چھوڑے رکھتے ہیں اور نہ لانے کی صورت میں ملامت کا اندیشہ بھی ہے؛ بلکہ یقینی ہے آیا یہ طریقہ درست ہے؟ اگر محض ثواب کی نیت سے ایسا کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟
فقط: والسلام
المستفتی: محمد سلمان، متعلّم دارالعلوم وقف دیوبند
asked Jun 7, 2023 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مذکورہ فی السوال رسم وطریقہ بالکل غلط ہے، اولاً تو اصولی بات یہ ہے، جس کے ذمہ نان ونفقہ واجب ہوتا ہے اسی پر مرنے کے بعد کفن کا دینا بھی واجب ہوتا ہے۔
فتویٰ اس پرہے کہ شوہر مالدار ہو یا غریب عورت نے مال چھوڑا ہو یا نہ چھوڑا ہو، کفن زوج ہی پر واجب ہوتا ہے۔ یہی مسلک ہے امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابی یوسفؒ کا، اور فتویٰ اسی پر ہے۔(۲)
معلوم ہوا کہ شوہر کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ کفن دے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر وہ کفن نہیں دے گا، تو گنہگار ہوگا؛ البتہ اگر اس کے پاس رقم نہ ہو، تو اسی کے اقارب سے لیا جائے اور اگر مرحومہ کے والد یا بھائی یا رشتہ دار اپنی مرضی سے دینا چاہیں تو ممانعت نہیں ہے؛ لیکن ان کو مجبور نہیں کیا جاسکتا اور لعنت ملامت تو اول درجے کی جہالت ہی ہے اور ناجائز بھی ہے۔(۱)
(۲) الذي اختارہ في البحر لزومہ علیہ موسرا، أو لا لہا مال، أو لا لأنہ ککسوتہا وہي واجبۃ علیہ مطلقاً۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کفن الزوجۃ علی الزوج‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۱۰)
(۱) فعلی المسلمین أي العالمین بہ وہو فرض کفایۃ۔ (ابن عابدین، الدرالمختار، ج۳، ص۲۰۱)
لو کفن الزوجۃ غیر زوجہا بلا إذنہ، ولا إذن القاضي فہو متبرع۔ (’’أیضاً:‘‘: ج ۲، ص: ۲۰۵)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص403
 

answered Jun 7, 2023 by Darul Ifta
...