34 views
میت کے گھر والوں پر گوشت کھانے کا حکم:
(۱۰۳)سوال:راجستھان کی بعض قوموں میں ایک روایت ہے کہ جب کسی گھر میں موت ہوتی ہے تو اس میت کے گھر والوں کے لیے گوشت کا کھانا اور اس کا پکانا قطعاً حرام قرار دیا جاتا ہے، ان کے یہاں ایک ٹائم روح کی فاتحہ کے نام سے مقرر ہوتا ہے، اس مقررہ وقت پر بھائی برادری کے لوگ اکٹھا ہو کر سوگ کے نام سے کچھ رقم جمع کرتے ہیں، اور اس سے کھانا دال وغیرہ پکایا جاتا ہے، اور گوشت علیحدہ پکایا جاتا ہے اور اس پکے ہوئے گوشت کو دال میں ملا دیتے ہیں اور سب مل کر اس کو کھاتے ہیں،  اورمیت کے گھر والوں کو کھلاتے ہیں، اس دن سے پھر گوشت حلال ہوجاتا ہے دریافت طلب بات یہ ہے کہ روح کی فاتحہ کے بارے میں دین متین میں کیا حقیقت ہے؟ اور گوشت جو کہ حلال تھا اس کو اپنے اوپر حرام قرار دینا کیسا ہے؟ کچھ لوگ جو اس کو منع کرتے ہیں تو قوم اس کو برادری سے باہر کر دیتی ہے۔
فقط: والسلام
المستفتی:حاجی عبداللہ صاحب
asked Jun 7, 2023 in اسلامی عقائد by azhad1

1 Answer

الجواب وباللّٰہ التوفیق:مردے کو ایصال ثواب کرنے کی شرعاً اجازت ہے؛ لیکن کوئی وقت مقرر کرنا، یا کھانے کی قسم مقرر کرنے کی شرعی اجازت نہیں ہے، جس کام کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کی کوئی شرعی اصل نہیں ہے، یہ غلط اور بے اصل ہے، اس رواج کو توڑنا ضروری اور باعث ثواب ہے، مردے کو کچھ پڑھ کر ایصال ثواب کیا جائے، کسی مستحق کو کتابیں کپڑے وغیرہ دیدیئے جائیں، کسی بھوکے کو کھانا کھلادیا جائے؛ ان سب کا ثواب مرحوم کو پہونچا دیا جائے۔(۱)

(۱) فإن من صام أو صلی أو تصدق وجعل ثوابہ لغیرہ من الأموات والأحیاء جاز ویصل ثوابہا إلیہم عند أہل السنۃ والجماعۃ۔ کذا في البدائع، وبہذا علم أنہ لا فرق بین أن یکون المجعول لہ میتاً أو حیًا۔ (ابن نجیم، البحر الرائق، ’’کتاب الحج: باب الحج عن الغیر‘‘: ج ۳، ص: ۱۰۶)
ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت لأنہ شرع في السرور لا في الشرور، وہي بدعۃ مستقبحۃ۔ (ابن الہمام، فتح القدیر، ’’کتاب الصلاۃ: فصل في الدفن‘‘: ج ۲، ص: ۱۵۱)
ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلی القبر في المواسم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنازۃ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت‘‘: ج ۳، ص: ۱۴۸)
ویقرء من القرآن ما تیسر لہ من الفاتحۃ وأول البقرۃ إلی المفلحون، وآیۃ الکرسي وآمن الرسول، وسورۃ یٰس، وتبارک الملک، وسورۃ التکاثر، والإخلاص إثنی عشر مرۃ أو إحدی عشر أو سبعاً أو ثلاثا، ثم یقول: اللہم أوصل ثواب ما قرأناہ إلی فلان أو إلیہم۔ (ابن عابدین، الدر المختار مع رد المحتار، ’’کتاب الصلاۃ: باب صلاۃ الجنائز، مطلب في زیارۃ القبور‘‘: ج ۳، ص: ۱۵۱)


فتاوی دارالعلوم وقف دیوبند ج1ص406

answered Jun 7, 2023 by Darul Ifta
...