• Print

جا نشین حکیم الاسلام

خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صا حب قا سمی نور اللہ مرقدہ

صدر مہتمم جامعہ اسلامیہ دارالعلوم وقف دیوبند

(١٤؍اپريل٢٠١٨)


چہرہ خوبصورت و نو رانی تدبرو تحمل کا عنوان ، پیشانی نور و نکہت سے معمور ، دل صداقت اور مروت کا خو گر ،مجلس وقار اور ادب کا امتزاج ،ہر مجلس ‘ہر محفل‘میں میر محفل ‘کاروان دیو بند کے میر کا رواں ‘بسی اور خا ندانی شرافتوں کے علمبردار ‘نسبت قا سمی کے تاجدار خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم صاحب قا سمی مدظلہ العالی، حجہ الاسلام حضرت مولانا محمد قا سم نا نو تو ی ؒ شمس العلماء حضرت مولانا حا فظ احمد صاحب ؒ ‘حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب ؒ کی یاد گار ان کے علمی وارثاور سچے جا نشین ہیں اور ا س علمی ورا ثت کو رفعت و بلندی ‘تقدس اور عظمتوں کے سا تھ محفوظ رکھے ہوئے ہیں جہاں کہیں دیو بند کے چرا غوں کی لو دھیمی ہو تی ہے یا آندھیاں ان چرا غوں کو بجھا نے کی کو شش کرتی ہے و ہیں ان کی ذات محا فظ بنکر سا منے آکھڑی ہوتی ہے۔

۲۲/ جما دی الثانی۱۳۴۴ھ۸جنو ری ۱۹۲۶ء  بروز جمعہ آستا نہ قا سمی دیو بند میںآپ نے آ نکھیں کھو لیں ۔آپ کے والد بزر گوار حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری  محمد طیب صاحب ؒ بن حضرت مولانا حا فظ محمد احمد صا حب ؒ بن حجة الاسلام حضرت مولاناالامام محمد قا سم صاحب نا نو توی ؒ با نئی دار العلوم دیو بند، ۱۳۵۱ھ میں  دار العلوم دیو بند کے اندر دا خل ہو ئے اور از ابتداء تا انتہاءدارالعلوم ہی میں تعلیم مکمل کی۔ ناظرہ اور حفظ قرآن آپ نے پیر جی شریف حسن گنگوہی کے پاس کیا ۔ مولانا عاقل صاحب ؒ، مولانا ظہیر صاحبؒ ، اورمولانا حسن صا حب ؒ سے آپ نے کتب فارسی پڑھی ۔ ا سکے علاوہ کنز الد قا ئق مولانا اختر حسین صاحب ، ؒ میبذی  قاری اصغر صاحب ؒ، مختصراورسلم العلوم مولانا عبد السمیع صاحب ؒ اور ہدایہ مولاناعبدالاحد  صا حب ؒ سے پڑھی۔ آپ نے دورہ حدیث شریف کی کتب شیخْ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ ،حضرت علامہ ابراہیم بلیا وی ،ؒ حضرت مولانا اعزاز علی امرو ہوی ؒ، مولانا فخر الدین صاحب ؒ ،وغیر ہم سے پڑھی۔ ۱۳۶۷ھمطابق ۱۹۴۸ءآپ نے دورہ حدیث شریف سے فرا غت حا صل کی۔ اسی سال تدریسی خدمات کی انجام دہی کے لئے دارالعلوم دیو بند میں آپ کا تقرر ہو ا۔  نو رالایضاح ‘ترجمہ قرآن پاک ‘ ہدایہ ‘ شرح عقا ئد ‘ مشکوۃ شریف ‘ابو دا ود شریف ‘ بخاری شریف ‘ جیسی اہم کتب متعلق رہیں ۔ ۱۹۸۱ء تک مسلسل آپ تدریس میں مصروف رہے۔  دارالعلوم کے ایام تد ریس میں خصوصا شرح عقا ئد کا درس بہت مقبول رہا، اس کے علاوہ جن کتا بو ں کو اچھے اچھے اساتذہ پڑھانے کی ہمت نہیں کر پاتے آپ نے ان کتب کی تدریس میں اپنا ایک مقام بنا یا ۔ اور کتاب کو مکمل شرح و بسط کے ساتھ حل کیا ۔ قضیہ دارالعلوم کے بعد آپ دارالعلوم وقف دیوبند کے مہتم  بنے اور ایسے وقت میں جب دارالعلوم وقف کے پاس کچھ نہیں تھا بےسسرو ساما نی کادور تھا پریشا نیا ں ،  مجبوریاں اور دشوا ریاں دامن گیر تھیں ‘ایسے عالم میں آپ میر کا رواں کی حیثیت سے اس کار واں کو آگے بڑ ھانے کا حو صلہ دیا ،سلیقہ سکھا یا اور دارالعلوم وقف کو ایک شکل عطاء کر کے پورے عالم میں دارالعلوم وقف دیوبند کا ایک مقام پیدا کیا ‘ آج دارالعلوم وقف  دیوبندجو بھی ہے اور جس مقام پر بھی ہے وہ حضرت والا کی محنت ‘اخلاص محبت اور ادارہ سے تعلق کا مظہر اتم ہے اور آج بھی اس کا رواں کو بڑی ہی خوش اسلوبی اور حسن انداز پر لئے ہوئے سر گرم سفرہیں ۔ مسلسل علالت ‘جسمانی نقاہت اور عمر کے اس مر حلے پر پہو نچنے کے با وجود بھی ان کے ارادے ،عزائم اور حو صلے پست نہیں ہو ئے ۔آج بھی انہیں یہ فکر ہے کہ کس طرح اس ادارہ کا فیض عام ہو۔ دارالعلوم وقف دیوبندکی مسنداہتمام پرفائزہونے کے ساتھ ساتھ بخاری شریف کی تدریس کے ذریعہ طا لبان علوم نبویہ کی علمی تشنگی بجھا رہے ہیں ۔ پا بندئی اوقات کا جو اہتمام ان کی زندگی پر حاوی ہے یہی پا بندی  ان کا ایک امتیاز ہے، سفر ان کی ا یک زندگی ہے ایک قدم دیو بند میں تو دوسرا قدم دیو بند سے باہر ۔ابھی طویل سفر سے وا پسی ہوئی اور چند گھنٹوں کے بعد دوسرے سفر کے لئے روا نگی۔ کبھی  مدارس اسلامیہ کے جلسو ں میں شرکت ‘کبھی فقہی سیمناروں  میں  حا ضری ،کسی وقت مسلم پر سنل لا بوڑکی میٹنگ میں مو جو د ،کہیں دینی تبلیغی اجتماعات میں خطا ب،  چلنا بس چلنا، نہ کہیں ٹھہر نا نہ کہیں رکنا ۔

ہندو سنا ن کا گوشہ گوشہ اور چپہ چپہ ان کی تقریر کی چا شنی کو بر سوں سے محسوس کر رہا ہے وہ اپنے طرز کے واحد خطیب ہیں حکیم الاسلام نے اپنی خطابت کو ٹھہراؤ، سبک خرامی ،  اور پر سکون لب و لہجہ کی صورت دی تھی ۔ خطیب الاسلام نے اسکو برق رفتاری کا لباس پہنا یا ہے حکمت ان کا خا صہ ہے ‘بات سے بات پیدا کرنے کا ہنر انہیں آتاہے۔ یہ حکمت کے خواص ہیں۔ تہ در تہ مو تیوں کی تلاش ان کا فن ہے۔ دنیا کے بے شمار مما لک میں ان کی خطا بت کا چر چا ہے ۔وہ اسٹیج پر موجو د ہو ں تو سا معین کو اس بات کا یقین اور اعتماد ہو تا ہے کہ اب علم و فن کے چشمے پھو ٹیں گے اور بر سوں سے خشک اور گرم ہوا وں  کی  زد میں جھلس رہے موضوعات کو زندگی کا حسن اور تا ز گی میسر آئیگی سا معین کا تو ذکر ہی کیا ‘علماء بھی حیرت اور استعجا ب سے تکتے ہیں۔ ایک بےخودی کا عالم یہ ہو تاہے کہ آنکھیں کھلی اور چہروں سے حیرا نی عیاں ہو تی ہے ،وہ اپنے مخصوص اندا ز کے بناء پر دیو بند کی آبرو ہیں، ان کے قلم سے نکلی ہو ئی تحریر بھی ان کے اس اسلوب کی گواہ ہے جو صرف اور صرف ان ہی کا اسلوب ہے ۔تقریر کے آسمان پر جس طرح ماہ وا نجم کی محفل سجائی ایسے ہی تحریروں کی دنیا میں بھی قو س و قزح کے رنگ پیدا کئے ان کے مقالات اور مضا مین عمیق  مطا لعہ ‘ دقت نظر ‘وسعت معلو مات کا نتیجہ ہیں۔ ہر مو ضوع پر لکھنا ان کا پسندیدہ اور محبوب مشغلہ ،مو ضوع  یا  عنوان کے جدید و قدیم ہو نے سے ان کے قلم کی روانی ‘بہاؤ اور تیزی قطعی متا ثر نہیں ہو تی ‘ہنداور بیرونی ہند کے مؤقر رسائل بڑی ہی اہمیت کے سا تھ آ پ کے مضا مین کو جگہ دیتے ہیں علاوہ ازیں آپ کے رشحات قلم سے بے شمار کتا بیں معرض وجود پر آئیں ‘جن میں مبا دی التربیة الا سلامیة  (عربی)(۲)جا ئزہ ترا جم قران (۳) تاجدار  ارض حرم کا پیغام (۴)مردان غازی (۵)ایک عظیم تا ریخی خدمات (۶)سفر نامہ بر ماقا بل ذکر ہیں۔ آپ کے خطا بت کا مجمو عہ بنام خطبات خطیب الاسلام کی ۵جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں۔  علاوہ ازیں علمی ادبی مو ضوعات پر آپ کے بے شمار مقا لا ت ہیں جو قا بل اشاعت ہیں ۔آپ اپنی زبان کسی کی اہا نت تضحیک اور تحضیرکے لئے استعمال نہیں فر ماتے۔ رکیک باتوں اور سطحی گفتگوکو اپنی مجلس میں دا خل نہیں ہو نے دیتے ’سنجیدگی او ر پوری عا لما نہ شا ن کے ساتھ ان کی مجلسیں آباد ہیں جب وہ علمی مسائل پر گو ہر افشانی کر رہے ہو ں تو ایک بجلی سی کودتی ہے ایک شعلہ سا لپکتا ہے ،لمحو ں میں زمین سے آسما ن تک کا سفر طے ہو جا تاہے۔ ان کی عصر کے بعد کی مجلس کا رنگ ا یسا ہی ہے ،جہاں کبھی خود سے کلام فرما تے ہیں اور کبھی مسائل کے جواب دیتے دکھا ئی دیتے ہیں اس وقت صرف آپ کی شخصیت ایسی ہے جنہیں ۱۳۶۲ھ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نویؒ کے تلمیذ ہو نے کا شرف حاصل ہے ۔ آپ کی علمی پروان اور اعلی خدمات کو دیکھتے ہو ئے جا معہ الازہر قاہرہ مصر میں عالم اسلام علمائے اسلام و دا نشوراں قوم و سر براہا ں مملکت اسلامیہ نے آپ کو اسلام کا سب سے بڑا عالم تسلیم کر تے  ہوئے امتیا زی ایوا ڈ سے نوا زا ہے۔

7 ذی قعدہ 1435ھ کو مجلس مشاورت کی میٹنگ میں حضرت والا نے اپنی ضعف و نقاہت کو جب اراکین کے سامنے رکھا تو اراکین نے آپ کو صدر مھتمم اور حضرت مولانا محمد سفیان قاسمی صاحب کو مھتمم کے عہدہ کے لئے تجویز پیش کی جس کو حضرت نے قبول فرمایا۔  

حضرت والا اس وقت ایشا ء کی عظیم اسلا می درسگاہ دارالعلوم وقف دیو بند کے صدر مہتمم، مصر علماء کو نسل کے رکن ‘مظا ہر علوم وقف سہارن پور کی مجلس شوری ٰکے صدر، دار العلوم ندوة العلماء لکھنؤ کی شوری کے رکن، آل انڈیا مسلم پر نسل لا بوڈکے سینئر نا ئب صدر، آل انڈیا مجلس مشا ورت کے صدر ، جا معہ دینیات کے سر پرست اور کل ہند را بطہ مسا جد کے سر پرست کے سا تھ سا تھ ان کے علاوہ بے شمار تنظیموں اور اداروں اور جما عتوں کے رکن اساسی اور مدارس اسلامیہ کے سرپرست ہیں۔ حضرت والا کی شخصیت اس پھول کی سی ہے جسکی خوشبوسے پوری فضا ء مہک رہی ہے ‘اس شجر کی  بھی جس کے سایہ تلے ہم سکون حا صل کر رہے ہیں دعاء ہے کہ یہ درخت ہمیشہ ہر ا بھرا رہے ‘سا یو ں کا سفر درازہو ‘اور خو شبوؤں کا یہ سفر آفتاب و ما ہتاب کی طرح جاری رہے۔