• Print

الشیخ الکبیر فضل الرحمٰن عثمانی رحمۃ اللہ علیہ

المتوفیٰ ۱۳۲۵ھ مطابق ۱۹۰۷ء


حیات اور تصانیف

حضرت مولانا فضل الرحمن عثمانیؒ نے بھی دہلی کالج میں حضرت مولانا مملوک علی ؒ سے تعلیم پائی تھی، دارالعلوم کے بانیوں میں سے تھے، مجلسِ شوریٰ کے آخر تک رکن رہے، فارسی اور اردو کے بلند پایہ شاعر تھے، متعدد نظمیں، قصیدے اور مرثیے وغیرہ ان کے ذوقِ شعری کے آئینہ دار ہیں، دیوبند میں ۱۳۰۱ھ مطابق ۱۸۸۳ء میں ایک زبردست طاعون  پھیلاتھا، اس طاعون کی تباہ کاریوں کو انہوں نے فارسی زبان میں نظم کیا ہے، اس نظم کا تاریخی نام 'قصۂ غمِ دیبن' (۱۳۰۱ھ) ہے، دیوبند کے حالات میں یہ ایک تاریخی دستاویز ہے،حضرت مولانا فضل الرحمٰن کو مادۂ تاریخ کے نکالنے میں بھی بڑاکمال حاصل تھا، دارالعلوم کی رودادوں میں ان کی بہت سی نظمیں اور تاریخی قطعات درج ہیں، محکمۂ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس کے عہدے پر فائز تھے، بریلی، بجنور اور سہارنپور وغیرہ اضلاع میں تعینات رہے، ۱۸۵۷ء میں بریلی میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس تھے، اس ہنگامے میں جب مولانا محمد احسن نانوتویؒ کو بریلی چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا تو اپنے بعض معاملات انہیں کے سپرد کئے تھے۔

مولانا فضل الرحمٰن  کے ممتاز اخلاف

مولانا فضل الرحمٰن  نے ۱۳۲۵ھ مطابق ۱۹۰۷ء میں رحلت پائی، انہوں نے اپنے بعد اپنے فرزندوں میں مولانا مفتی عزیزالرحمٰن عثمانیؒ مفتئ اعظم دارالعلوم دیوبند، مولانا حبیب الرحمٰن عثمانیؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند اورشیخ الاسلام  شبیر احمد عثمانیؒ صدر مہتمم دارالعلوم دیوبند جیسے مشاہیراور یگانۂ روزگار علماء چھوڑے۔ ندوۃ المصنفین دہلی کے ناظم اعلیٰ مفتی عتیق الرحمٰن عثمانیؒ انہی کے پوتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن عثمانیؒ کے اخلاف نے عظیم علمی اور دینی خدمات انجام دی ہیں، جن کا سلسلہ بحمد اللہ اب تک جاری ہے۔