• Print

حضرت مولانا محمد یعقوب ؒ


دا رالعلوم کے اس عظیم منصب پر سب سے پہلے حضرت مولانا محمد یعقوب نا نو توی ؒ فائز ہوئے انہوں نے اپنے والد ماجد حضرت مولانا مملوک علی ؒ اور حصرت شاہ عبد الغنی مجددی دہلویؒ سے تحصیل علوم کی تھی ۔ 
حضرت مولانا محمد یعقوب نا نو توی ؒ ۱۳صفر ۱۳۹۴مطابق ۱۸۳۴ء کو نا نو تہ میں پید ا ہوئے ۔منظور احمد غلام حسین اور شمس الضحی ان کے تا ریخی نام ہیں قران مجید نا نو تہ میں حفظ کیا محرم ۱۲۰۶ہ مطابق ۱۸۴۴ء میں جب ان کی عمر گیا رہ سال کی تھی ان کے والد ماجد ان کو دہلی لے گئے میزان منشعب اور گلستاں سے انکی تعلیم شروع ہوئی تمام علوم متدا ولہ اپنے والد سے حاصل کئے البتہ علم حدیث کی تحصیل حضرت شاہ عبد الغنی مجددی سے کی علوم منقول و معقول میں اپنے والد ماجد کے مثل تھے۔ 
ذی الحجہ ۱۲۶۷ہ مطا بق ۱۸۵۱ء میں حضرت مولانا مملوک علی کا انتقال ہو گیا اس کے ایک سال بعد تک قیام رہا بعد ازں اجمیر کے کو ر منٹ کا لج میں ان کا تقرر ہو گیا مکتوبات یعقوبی میں لکھا ہے :
اجمیر میں ۳۰روپے پر ملا ز م ہو کر تشریف لے گئے اس وقت آپ بہت کم سن تھے پر نسپل اجمیر کا لج نے دیکھ کر کہا مو لوی تو اچھا ہے مگر نو عمر اور کم سن ہے پر نسپل کی سفارش پر اپ کو ڈپٹی کلکٹر ی کا عہد ہ دیا گیا مگر اپ نے قبول نہیں کیا اس کے بعد اپ کو سو رو پیے ماہوا را پر بنارس بھیجا گیا وہاں سے ڈیڑ ھ سو روپیکی تنخواہ پر ڈپٹی انسپکٹر بنا کر سہا رنپور میں تقرر ہو ا ہیہیں عزر کا وا قعہ پیش آیا 
اس زمانے میں نا نو تہ میں قیام رہا سرکاری ملازم سے استفا دے کر سبکدوش ہو گئے اور میرٹھ میں منشی ممتاز علی کے مطبع میں ملا زم ہو گئے سوا نح قا سمی میں خود لکھتے ہیں 
منشی ممتاز علی صاحب نے میر ٹھ میں چھا پہ خا نہ قائم کیا مولوی محمد قاسم صاحب کو پرانی دو ستی کے سبب بلا لیا وہی تصحیح کی خدمت تھی یہ کام برائے نام تھا مقصود ان کا مو لوی صاحب کو اپنے رکھنا تھا احقر اس زمانے میں بریلی اور لکھنوء ہو کر میر ٹھ میں اسی چھاپہ خا نے میں نو کر ہو گیا 
۱۲۸۳ہ مطابق ۱۸۶۶ء میں دیو بند تشریف لائے اور یہاں تدریس کی منصب پر فائز ہوئے دارالعلوم کے پہلے شیخ الحدیث تھے ان کے فیص و تعلیم و تر بیت نے بہت سے ممتاز علماء پیدا کئے جو آسمان و علم وفضل کے آفتاب و ما ہتا ب بن کر چمکے ۱۹سال مدرسہ میں ۷۷طلبہ نے آپ سے علوم نبو یہ کی تحصیل کی جن میں مولا نا عبد الحق پور قا ضوی 249 مولانا عبداللہ 249مولانا فتح محمد تھا نوی 249 شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی 249مولانا خلیل احمد 249 مولانا احمد حسن امرو ہوی 249 مولانا فخر الحسن گنگو ہی 249 مولانا حکیم منصور خاں مراد آباد ی 249 مفتی عزیزالرحمان دیو بندی 249 مولانا حا فظ محمد احمد اور مولانا حبیب الر حمان عثمانی رحہماللہ جیسے مشا ہیر اور یگانہ ء علماء شا مل ہیں 
حضرت مولانا یعقوب ؒ او ران کے تلا مزہ کے فیض و تعلیم کو دیکھتے ہو ئے اگر یہ کہا جا ئے تو مبا لغہ نہ ہو گا کہ اس وقت ہند و پاک 249 بنگلہ دیش 249افغا نستان اور وسط ایشیامیں جس قدر علما ء مو جو د ہیں ان کی بڑی تعداد اسی خوان علم کی ز لہ رہا ہے ان کیک حلقہ ء درس کی نسبت اشرف السوا نح میں لکھا ہے کہ :
حضرت مولانا یعقوب ؒ جو علاوہ ہر فن میں ماہر ہو نے کے بہت بڑے صا حب با طن اور شیخ کا مل بھی تھے حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی نے مولانا ممدوح سے بڑے بڑ ے فیو ض و بر کات حا صل کئے اور زیادہ تر علوم عجبیہ و غر یبہ انہیں سے حا صل کئے اور مو لانا کے اکثر اقوال او احوال و حقا ئق و معارف نہا یت لطف لے کر بیان فر ما یا کرتے ہیں اور آنکھو ں سے 
زار و قطار آنسوجا ری ہیں 
حضرت مولانا محمد یعقوب ؒ نے حضرت حاجی امدا داللہ مہا جر مکی سے سلوک و معرفت کے مقا مات طے کئے تھے اکثر جزکیف کی حا لت طاری رہتی تھی دنوی علا ئق کے جا نب مطلق تو جہ نہ تھی انہوں نے جو خطوط اپنے ایک مرید منشی محمد قا سم نیا نگری کے نام لکھے ہے وہ سلوک و معرفت کامر قع اور حقا ئق تصوف کا دستور العمل ہیں مسالک کے لئے وہ ایک جا مع ہدا ہت نامہ ہیں 
با و جو د کہ مزاج میں جلال اور جزب کا غلبہ تھا اور اس رعب اور اثر کا یہ عالم تھا کہ لو گ بات کر تے ہو ئے گھبر تے تھے مگر اپ ہر شخص سے نہایت اخلاق و توضع کے سا تھ پیش آتے تھے اپنے بزرگو ں کی طرح مزاج میں بڑا استغنا تھا جس کا اندا ز اس و ا قعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک صاحب نے جن کو مولانا کے مزاج میں برا دخل تھا عرص کیا فلاں نواب صاحب کی بڑی خوا ہش ہے کہ ایک مر تبہ اپ ان کے یہاں تشریف لے جا ئیں مولانا نے فرما دیا ہم نے سنا ہے کہ جو مو لوی نواب صاحب کے یہاں جا تاہے نواب صاحب اس کو سو رو پہ دیتے ہیں اس لئے وہ شا ید دو سو رو پئے دے دیں سو دو سو ہمارے کتنے دن کے لئے ہیں ہم وہاں جا کر مو لویت کے نام پر دھبہ نہ لگا ئیں گے 
مکتوبات یعقوبی کے دیبا چہ نگار حکیم امیر احمد کلھتے ہیں اپ کے صد ہا شا گرد بلاد ہندوستان کا بل و بخارا وغیرہ میں مو جود ہیں آپ جامع علوم معقول و منقول ہیں فا صل اجل اور عالم ہو نے کے علاوہ سالک و مجزوب بھی تھے اور جسیے کہ اپ رو حانی طیب تھے اسی طرح امراص ظا ہری کا بھی علاج کر تے تھے 
اپ نہا یت خوش وضع 249خوش خلق 249 خوش خو 249 خوش لہجہ 249و خوش گفتگو تھے بڑ ے صا حب کمال و مکا شفات تھے ا پ سے بہت پشین گو ئیاں صادر ہو ئیں جن میں بعض کا صدور ہو چکا ہے جو باقی ہے ان کا انتظار ہے اپ نے دو حج کئے پہلا حج ۱۲۷۷ہ مطا بق ۱۸۶۰ء میں حضرت مولا نا قا سم قدس سر ہ کی معیت میں کیا گیا حضرت مولانا مظفر حسین کا نددھلوی اور حضرت حاجی عا بد دیو بندی بھی ساتھ تھے یہ سفر پنجاب اور سندھ کے را ستے سے کیا گیا بیاض یعقوبی میں خود انہوں نے اس سفر کی مفصل یا دا شت لکھی ہے درسرے حج کے لئے ۱۲۹۴دہ میں تشریف لے گئے اس مرتبہ بھی علماء کی ایک جماعت کی معیت میں رہی حضرت مولانا نا نو توی حضرت مولانا گنگوہی ؒ حضرت مولانا مظہر نا نو توی ؒ اور حضرت مو لا نا منیر نا نو توی ؒ حضرت مولانا حکیم ضیاء الدین اور حضرت مو لانا محمود حسن دیو بندی وغیرہ حضرات کے علاوہ اس مقدس قا فلے میں تقریبا سو آدمی تھے 
مو لوی جما ل الدین بھو پالی 249حضرت مولانا مملو ک علی کے شا گرد تھے انہوں نے اس تعلق کے بناء پر حضرت مولانا یعقوب کو ایک بڑے مشا ہرہ پر بھو پال طلب فرما یا مگر اٖپ نے دارالعلوم کی قلیل تنخواہ کے با و جو د دارالعلوم سے ترک تعلق کو پسند نہ فرما یا اور اپنے بھانجے مو لانا خلیل اختر کو بھو پال بھیج دیا ۔
مولانا یعقوب شعر و شا عری سے ذوق رکھتے تھے گمنام تخلص تھا انہو ں نے دہلی میں بزمانے طا لب علمی غالب مو من 249 ذوق 249 اور آزردہ جیسے یگانہ روز گار شعرا کو دیکھا تھا اور ان کی مجا لس سخن کی ہنگا موں سے ان کے کان آشنا تھے اپنے ایک خط میں مستر شد منشی محمد قا سم نیا نگری کو مشو رہ دیا ہے کہ وہ دررسودا اور ذوق کے کلام کوبڑھا کریں اس میں درد واثر ہے مولانا کا فا رسی اور اردو کلام بیاض یعقوبی میں درج ہے اشعار میں قدر کلام کے ساتھ سو زو گدا ز اور دد ر وا ثر پا یا جا تا ہے تصانیف میں تین رسا لے ان کی یاد گار رہیں سوانح قا سمی اگر چہ بہت مختصر حیات ہے مگر 
زبان اور بیان اور حالات اور وا قعات کے لحاظ سے بہت قا بل قدر ۔ ان کا دوسر ا مجموعہ مکتوبات یعقوبی ہے جو ۶۴خطو ط پر مشتمل ہے خطوط استفسارات کے جو ا بات میں لکھے گئے ہیں ان میں راہ سلوک کی دشوا ریوں کا حل مسا ئل شرعیہ کا ذکر اور طریقت و سلوک کا دستور العمل بیان کیاگیا ہے ۔

تیسرا مجموعہ بیاض یعقوبی ہے یہ سفر حج کے حا لات 249 کتب و احا دیث کی اسا نید منظو مات اور عملیات و غیرہ پر مشتمل ہے آخر میں طبی نسخے درج ہیں حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی ؒ نے دونوں مجموعوں پر حسب ضرورت خواشی تحریر فر مائے ہیں 
وفات سے چند دن پہلے وطن ما لوف نا نو تہ تشریف لے گئے تھے و ہیں بمرض طا عون ۳ربیع الاول ۱۳۰۲ہ مطابق ۱۸۸۵ء کو داعی اجل کو لیبک کہا ۔