• Print

الشیخ الکبیر ذوالفقار علی رحمۃ اللہ علیہ

المتوفیٰ ۱۳۲۲ ھ۱۹۰۴ء


حیات اور تعلیم
تصانیف
شیخ ذوالفقار علی فرانسیسی مصنف کی نظر میں 
آپ کی وفات اور تدفی

حیات اور تعلیم

مولانا ذوالفقار علیؒ شیخ الہند محمود حسن ؒ کے والد ماجد تھے، آپ نے تحصیل علوم دہلی کالج میں کی تھی، مولانا مملوک علی نانوتویؒ سے نسبتِ تلمذ حاصل تھی، تعلیم کے بعد بریلی کالج میں آپ کی تقرری بحیثیت پروفیسر  ہوئی ، محکمۂ تعلیم میں ڈپٹی انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہوئے، 
(ریٹائرمنٹ پر) پینشن پانے کے بعد دیوبند میں اعزازی مجسٹریٹ رہے۔ آپ ان اکابر میں سے تھے جو دارالعلوم کی بناء و تاسیس میں شروع ہی سے شریک رہے تھے،آپ الامام  محمدقاسم النانوتویؒ کےقریبی دوست تھے۔

تصانیف

عربی زبان و ادب پر بڑی دسترس تھی، دیوانِ حماسہ کی شرح تسہیل الدراسہ، دیوانِ متنبی کی شرح تسہیل البیان، سبع معلقات کی شرح التعلیقات علی السبع المعلقات، قصیدہ بنت سعاد کی شرح ارشاد، اور قصیدہ بُردہ کی شرح عطر الوردہ اردو میں تحریر فرمائیں۔ ،مولانا نے ان شروح میں عربی کے غریب اور مشکل الفاظ اور محاورات کا ایسا سلیس اور بامحاورہ ترجمہ اور ایسی دلنشیں تشریح کی ہے جس کی بدولت عربی ادبیات کی یہ سنگلاخ کتابیں طلبہ کے لئے نہایت سہل اور آسان ہوگئی ہیں۔ معانی و بیان میں تذکرۃ البلاغۃ اور ریاضی میں تسہیل الحساب ان کی یادگار ہیں۔ 
۱۳۰۷ھ میں آپ نے عربی زبان میں ایک مختصر  رسالہ بنام 'الہدیۃ السنیۃ فی ذکرالمدرسۃ الاسلامیۃ الدیوبندیۃ' لکھا ، جس میں بزرگانِ دارالعلوم  دیوبندکے  اوصاف و کمالات  اور سرزمین دیوبند کی خصوصیات پر بڑے لطیف اور ادیبانہ انداز میں تبصرہ کیا ہے۔

شیخ ذوالفقار علی فرانسیسی مصنف کی نظر میں

 فرانس کا مشہور مصنف 'گارسان دتاسی ' مولانا ذالفقار علی کے بارے میں لکھتا ہے 'وہ دہلی کالج کے طالب علم تھے ، چندسال بعد بریلی کالج میں پروفیسر ہوگئے ۱۸۵۷ میں میرٹھ میں ڈپٹی انسپکٹر مدارس تھے، مسٹر ٹیلر ان سے واقف تھے، ان کا بیان ہے کہ ذوالفقار علی ذہین اور طباع ہونے کےعلاوہ  فارسی اور مغربی علوم سے بھی واقف تھے، انہوں نے اردو میں تسہیل الحساب کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جو بریلی میںء۱۸۵۲ میں چَھپی ہے'۔

آپ کی وفات اور تدفین

آپ کی وفات ۱۳۲۲ھ مطابق ۱۹۰۴ء میں ۸۵/سال کی عمر میں ہوئی۔ آپ کی قبر مشرق میں حضرت نانوتویؒ کی قبر کےقریب ہے۔ آپ کی بائیں جانب مولانا محمد احسن نانوتویؒ مدفون ہیں، اس پر مولانا فضل الرحمٰن عثمانیؒ کا یہ شعر بڑا دلچسپ ہے:
ہاں ، بخُسپ آسودہ تر، مابین دویارانِ خویش             قاسمِ بزمِ مؤدت، احسنِ شائستہ خو