• Print

مولانا رفیع الدین دیوبندی علیہ الرحمۃ

۱۸۶۷ – ۱۸۶۹، ۱۸۷۱ – ۱۸۸۸


حیات و خدمات

مولانا رفیع الدین دیوبندی ؒ ۱۲۵۲ھ مطابق ۱۸۳۶ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت شاہ عبد الغنی مجددی کے مشہور خلفاء میں تھے، گو علمی حیثیت معمولی تھی، لیکن انتظامی امور کا زبردست ملکہ تھا، اور اس بارے میں عجیب و غریب صفات کے مالک تھے، ان کا شمار اپنے زمانے کے اولیائے کاملین میں تھا، دومرتبہ دارالعلوم کے مہتمم مقرر ہوئے، پہلی مرتبہ ۱۲۸۴ھ مطابق ۱۸۶۷ء اور ۱۲۸۵ھ مطابق ۱۸۶۸ء میں حاجی صاحب کے سفر کے زمانے میں اہتمام کی خدمات انجام دیں، پھر تقریباً ۳/سال کے بعد ۱۲۸۸ھ مطابق ۱۸۷۱ء میں مستقل مہتمم قرار پائے، اور ۱۳۰۶ھ مطابق ۱۸۸۸ء کے اوائل تک اس منصب پر فائز رہے، آپ کے زمانے میں دارالعلوم نے بڑی ترقی کی، جس کو بڑی حد تک آپ کے حسنِ انتظام کا نتیجہ سمجھاجاتاہے، مشہور ہے کہ دیانت و امانت کے ساتھ انتظامی سلیقے کا بہت کم اجتماع ہوتا ہے، مگر ان میں بدرجۂ اتم موجود تھا، کل مدتِ اہتمام تقریباً ۱۹/سال ہے۔

نودرہ کی تعمیر اور آپ کا خواب

دارالعلوم کی اکثر ابتدائی عمارتیں آپ ہی کے زمانۂ اہتمام میں تعمیر ہوئیں، ان کے تعمیری ذوق کا اندازہ اس زمانے کی عمارتوں بالخصوص نودرے وغیرہ کی پختگی، اُستواری اور حسنِ تعمیر کے کیا جاسکتا ہے، یہ عمارت دارالعلوم کی عمارتوں میں ایک ممتاز شان اپنے اندر لئے ہوئے ہے، مشہور ہے کہ ۱۲۹۲ھ مطابق ۱۸۷۵ء میں جب نودرے کی عمارت کی (جوموجودہ عمارتوں میں سب سے پہلی عمارت ہے) بنیاد شروع کی گئی تو آپ نے خواب دیکھا کہ 'آنحضرت ﷺ مجوّزہ مقام پر تشریف رکھتے ہیں، اور ان سے خطاب فرمارہے ہیں کہ 'یہ احاطہ تو بہت مختصر ہے' یہ فرماکر خود عصائے مبارک سے احاطہ وعمارت کا نقشہ کھینچ کر بتلایا کہ 'ان نشانات پر تعمیر کیجائے'، مولانا نے صبح کو اٹھکر دیکھا تو نشانات موجود تھے، چنانچہ ان ہی نشانات پر کھُدواکر تعمیر شروع کرائی گئی۔
حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمنؒ (وفات ۱۳۴۷ھ مطابق ۱۹۲۸ء) کو مولانا رفیع الدین ؒ سے خلافت حاصل تھی، ۱۳۰۶ھ مطابق ۱۸۸۸ء میں آپ بقصدِ ہجرت مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہیں دوسال کے بعد ۱۳۷۸ھ مطابق ۱۸۹۰ء میں انتقال فرمایا اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔