• Print

دارالعلوم دیوبند کی نشأۃ ثانیہ

دارالعلوم وقف دیوبند

 


۱۹۸۰ء میں حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہٗ مہتمم دارالعلوم دیوبند کی قیادت میں دارالعلوم دیوبند کا تاریخ سازجشن صدسالہ بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منعقد کیا گیا، یہ وہ دور تھا جب کہ حضرت حکیم الاسلام قدس سرہ العزیز بحیثیت مہتمم دارالعلوم  دیوبند کے قریب ساٹھ سالہ زرین تر دورانیہ پر محیط شبانہ روز محنت نے سرخیل جماعت  بانئ دارالعلوم حجۃ الاسلام حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتوی قدس سرہٗ  کی زیر قیادت و سیادت اس دور کے اکابر امت کی مخلصانہ رفاقت کے زیر اثر قائم کردہ دارالعلوم دیوبند کو ہمہ جہت عروج اور نیک نامی کے نصف النہار پرپہنچا دیا تھا، اسی درخشندہ عہد کے پس و پیش میں اس سے قبل حضرت حکیم الاسلام ؒ بحیثیت مہتمم دارالعلوم دیوبند  امت میں مسلم  دینی قیادت  کے زیر اثر جماعت کی مضبوط تحریکات و تائیدات کے ساتھ قوانین ہند میں اقلیتوں کے حوالے سے تسلیم شدہ آئینی حقوق کے تحت  ارباب اقتدار کی جانب سے  ہندوستان میں  مسلمانوں کے عائلی شرعی قوانین کو شخصی و اجتماعی جہود کے ذریعہ آئینی تحفظ فراہم کیے جانے  کے حوالے سے  1972ء کے تاریخ ساز بمبئی کنویشن میں آل انڈیا مسلم پرسنل لأء بورڈ کے بناء و قیام کا اعلان کرچکے تھے، جس کے لیے بلا تفریق عقائد و مسالک کی تائیدات و مؤئیدات کے ساتھ  آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اولین صدر کی حیثیت سے حضرت حکیم الاسلامؒ کے اس متحدہ انتخاب کو ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی تاریخ  نے  فکر و نظر کے متعدد اختلافات کے باوجود  حضرت ؒ کی عظمت فکر اور وسعت نظر کے سبب ہمہ جہت مقبولیت  کے طور پر درج کیا بعد ازاں ان کی متفقہ صدارت کا دور ثانی ان کی وفات  17 جولائی 1983 ء پر منتج ہوا۔

بانی دارالعلوم دیوبند اور ادارہ  کے  پیکر اخلاص اسلاف و اکابر سے  ذہنی علمی و فکری ذوق و وجدان کی قربت کے تاریخی تسلسل کے تناظر میں اپنے ساٹھ سالہ تابندہ و درخشانی دور اہتمام میں  ہمہ جہت و ہمہ نوع  فقید المثال خدمات کی اساس پر  حضرت حکیم الاسلامؒ اور  دارالعلوم دیوبند کے بیچ جسم و روح اور الفاظ و معانی کے مثل لزومیت و ملزومیت کا نادر الوقوع رشتہء اخلاص  بایں طور قائم تھا کہ فرد و جماعت سے شروع ہوکرملکی و عالمی پیمانے کے مختلف دوائر و اجتماعیات  تک میں ادارہ اور شخصیت میں تفریقی تصور بھی ایں خیال است و محال است و جنوں کے مترادف تھا اور یہی وہ باعظمت و بلند حیثیت تھی جو سوء فہم کی بنیاد پر فکری و ذوقی استبعاد رکھنے والے عناصر سمیت حکومت وقت کے لیے بھی اپنے اپنےطے کردہ  مختلف معانی و مفاہیم اور توجیہات کے تناظر میں اندیشہ و خلجان اور تشویش کا باعث تھی، حضرت حکیم الاسلامؒ کی زیر سیادت مؤقر اراکین مجلس شوری کی تحریکی معاونت کے ساتھ 1980ء میں دارالعلوم دیوبند میں اجلاس صد سالہ کا انعقاد ادارہ کے لیے  تاریخ کے  تناظر میں اپنےعظیم تر ایک سو پندرہ سالہ دور باعظمت  کے منتہی عروج و ارتقاء کا نادر الوقوع  اجتماع تھا جو کہ  ملکی و عالمی ذرائع ابلاغ اور حکومت و انتظامیہ کے اعداد و شمار کے مصدقات کی رو سے  ملک و دنیا کے اطراف و جوانب سے  کم و بیش بتیس لاکھ شرکائے فرزندان توحید کے اعترافات کے ساتھ ادارہ کے باعظمت دور عروج کا شاہد و گواہ اور  مناد و غماز تھا، جسے حکومت وقت کے لیے برداشت کرنا بایں طور بھی  دشوار ہو رہا تھا کہ حضرت حکیم الاسلامؒ کی دعوت پر دیوبند جیسے چھوٹے سے قصبے میں ملک و اطراف عالم سے لاکھوں لاکھ علم برداران  توحید کا  ایک آواز پر ایک پرچم تلے  للہیت کی اساس پر ایک شخص کی جہود مخلصانہ یا ایک عظیم تر ادارہ کی با اثر و باعظمت  قیادت کے زیر اثر متحد ہو جانے کو ارباب سیاست مختلف قسم کے فکر فردا اور  خدشات کے تناظر میں دیکھ رہے تھے نیز اقتدار کے ارباب  کی نظر اس تاریخ ساز اجتماع کے مابعد مرتب ہونے والےان دور رس متوقع خوشگوار منطقی نتائج پر تھی جسکے لیے وہ  اپنے اپنے فکر و مقاصد کے تناظر میں لیے جانے والے باریک بین جائزوں کی روشنی میں جہاں ایک طرف بایں طور  متفکر تھے  کہ ملت اسلامیہ کی اجتماعی قوت کے اس مظہر فیض پر قدغن کیسے لگائے جائیں وہیں مروجہ سیاست کے ذیل میں یہ فکر بھی دامن گیر تھی کہ آخر تاریخ کی اس مسلم الثبوت باعظمت شخصیت  میں وہ کون سی قوت جذب و انجذاب ہے کہ فرق و گروہ اور جماعتوں میں منقسم یہ قوم  اپنے متفق علیہ قائد کی اس درجہ گرویدہ و شیدا کیوں ہے، اور ملک و بیرون ملک مقبول عام ان کی  حیثیت عرفی  کے زیر اثر یہ اتحاد ملی کہیں ملکی مقاصد میں کسی مرحلے پر سد راہ تو نہیں بن جائیں گے ؟ لہذا کسی تعویق و التواء کے بغیر اس اجتماعی فکر و قوت کا مروجہ سیاست کے راستے سے منتشراور بے اثر کیا جانا ان کے نزدیک گزرتےوقت کا ترجیحی تقاضہ تھا، مروجہ سیاست سے مراد وہ تدابیر ہیں جس کے بنیادی عناصر مکر و فریب کے تار عنکبوت کے مثل سچ و صداقت کے بالمقابل دروغ کی قوت و تاثیر کی راہ سے اپنے مقاصد و اہداف تک رسائی حاصل کرتےہیں جبکہ اس کے بالمقابل  حضرت بانی دارالعلوم دیوبند سے چلے آرہے  متوارث خاندانی فکر و نظر کے زیر اثر حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمہ کا ذوق و مزاج اور رنگ و آہنگ سیاسی سرگرمیوں سے طبعی وذوقی بعد کی وجہ سے ہمیشہ سیاسی آلودگیوں سے بہت دوراور اس کے پیچ و خم سے نا آشنائی و ناواقفیت کا رہا، جو کہ متوارثا تاحال نسلوں میں جزو لاینفک کے طور پربایں معنی طریق سے جاری ہے کہ علم و حلم،وقار و متانت، قاسمی شرافت اور مزاجوں کی سادگی قاسمی خاندان کی شناخت اور تعارف کے سرنامہ کے طور پر آج بھی عوام الناس میں  معروف ہے اور افراد امت قاسمی خانوادے کو اپنے اسی قدیم اور موروثی رنگ وآہنگ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں، اور اسی متوارث ذوق و مزاج  کو بانی دارالعلوم دیوبند حجة الاسلام النانوتویؒ  کی ملہم من اللہ ہدایات کی رو سے دارالعلوم دیوبند کی بابت سیاسی آلودہ دامنی سے علیحدہ رکھے جانے کی ہدایت کو ادارہ کی معنوی بقاء کے تناظر میں ہمیشہ انتہائی بنیادی حیثیت حاصل رہی ہے اور عنداللہ جوابدہی کے تناظر میں جس کی ظاہری و معنوی حفاظت از روئے اصول بنائے ادارہ رئیس ادارہ کی بنیادی و منصبی ذمہ داریوں میں شمار ہوتی ہے، اور بحمداللہ وبفضلہ  تاریخ کے تسلسل کی اسی اہم ترین اساس کی معنویت اور اس کی دوامی حفاظت وقف علی اللہ کے بنیادی عنصرکے نفوذ پر “دارالعلوم “وقف” دیوبند” کے فکر و مزاج کی تعمیر ہوئی ہے، یہی وجہ ہے کہ گذرے ادوار میں متعدد مرتبہ مروجہ سیاست کے آزمائشی وقت میں ادارہ کو بتوفیق رب کریم متوازن حکمت  عملی کے زیر اثر  بروقت مصلحت آمیز تقویت فراہم کرنا حضرت حکیم الاسلامؒ کے انتظامی ملکات کا ایک امتیازی وصف واختصاص شمار ہوتا ہے۔

اجلاس صد سالہ کے بعد پیش آمدہ قضایائے نا مرضیہ کی بعد از وقت تحصیل حاصل جزئیات سےقطع نظر مقدرات الہیہ کے تحت جہاں ایک طرف منقلب احوال کا وہ آشوب ناک دور انتشار جس میں جہاں ایک طرف ادارہ کی بنیادی حیثیت “وقف” کی اسلامی اہمیت ما لہ و ما علیہ سمیت واقعات کے ہر لحظہ وپل کی صداقت کو تاریخ نے اپنے صفحات میں ہمیشہ کے لیے جذب کرلیا وہیں دوسری جانب  اس میں بظاہر اسباب پیش آمدہ وقائع متعدد تلخیوں کو اپنے اندر سمیٹنے کے باوجود کہیں نہ کہیں  حق تعالی کے تکوینی فیصلوں کے جلو میں خیر کے ظہور کا بھی بایں طور مناد ثابت ہوئے کہ ڈیڑھ صدی سے زائد عرصہء باعظمت پر محیط بانی دارالعلوم دیوبند کا یہ چشمہء خیر  دریا کے دو مساوی کناروں کے مثل مستقبل قریب میں ادارہ کی نشأة ثانیہ کے پیرائے میں “دارالعلوم وقف دیوبند” کے عنوان سے فکر نانوتوی کے تاریخی و علمی تسلسل کے زیر اثر علم و آگہی کی نئی وسعتوں اور بتقاضائے وقت فکر وتحقیق کی نئی بلندیوں اور تعلیم و تعلم کے جدید جہات و اسالیب سے ایک دنیا کو سیراب کرنے کے لیے حضرت حکیم الاسلام نوراللہ مرقدہ کی بابرکت وبصیرت افروز قیادت کے زیر اثر “وقف” کی اساسی معنویت کے ساتھ عالم شہود کی دہلیز پر ظہور کے لیے اذن رب کا منتظرتھا، تاآنکہ 1982ء کےماہ مئی میں حضرت حکیم الاسلام علیہ الرحمہ کی برکت بنائی سے ظہور پذیر “دارالعلوم وقف دیوبند” ان کی وفات کے بعد خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب نوراللہ مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند اور فخرالمحدثین حضرت مولانا سید انظر شاہ صاحب مسعودی علیہ الرحمہ سابق شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم وقف دیوبند کی شب و روز کی آہن شکن جہود و استقامت اور بصیرت افزا قیادت ،جرات وعزیمت ، علم وفضل اور دور اندیشانہ نبض شناسی وقت کی صلاحیتوں کے نتیجہ میں اصول تدریج  کے تحت اپنی ارتقائی منازل کی جانب گامزن ہوا، اور یوں  اپنی اساسی معنویت “وقف”سے ہم آہنگ  “دارالعلوم وقف دیوبند‘‘ کی شکل میں ملت اسلامیہ کے اس نانوتوی چشمہء حیات  کی نشأۃ ثانیہ ہوئی اور امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ،  ،بانئ دارالعلوم دیوبند حجۃ الاسلام حضرت الامام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ ، فقیہ الامت حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ، فخرالاسلام  حضرت مولانا حافظ محمد احمد صاحبؒ  شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن صاحبؒ دیوبندی، امام العصر فی الحدیث حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ اور حکیم الاسلام حضرت مولانا محمد طیب صاحب نوراللہ مرقدہم وغیرہ جیسے جبال علم  اور پیکران اخلاص  کا علمی و فکری اور ظاہری و معنوی عظیم تر و بیش قیمت سرمایہء امت کے اس گلشن نانوتوی کو ذات حق جل مجدہ نے اپنی بیحد و کنارسایہ فگن رحمتوں  برکتوں، لا انتہاء فضل و احسان اور وسعتوں سے ماوراء اپنے خزانہء خیر  کی لائق شکر وکرم نوازشات کے طفیل اس  روایتی و تاریخی تسلسل کو  تکوینی امتیازات  اور اکابر و اسلاف کے بہ ہمہ نوع  علمی و تعلیمی، فکری و انتظامی، تصنیفی و تالیفی، تحقیقی و تعمیری اختصاصات کے ساتھ ’’ دارالعلوم وقف دیوبند‘‘ کی شکل میں محفوظ کر دیا ہے،ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء۔

اہل علم نے لفظ اختلاف کی تعریف یہ کی ہے ہر یکساں حالت کے بعد جب اس کے بالمقابل کوئی دوسری صورت رونما ہوتی ہے خواہ اس کا تعلق احوال سے ہو یا واقعات سے ہو، فکر و نظر کے تضادات سے ہو یا قومی ملکی یا خاندانی رسوم و عادات سے ہو، اس کیفیت کو ظاہر کرنے کے لیے ہمارے پاس بجز لفظ اختلاف کے کوئی دوسرا تعبیری متبادل لفظ نہیں  ہوتا ہے، بنا بریں اختلاف فی نفسہ معیوب نہیں بلکہ اس کی وسعت و گہرائیوں میں عامل اجزاء سے ہی نظام عالم عبارت ہے،البتہ اگر اس میں خلاف، تشتت اور افتراق وانتشار اور پراگندگی کی کیفیات در آئیں اور قبل از خرابی بسیار اس جانب بر بنائے اخلاص و للہیت توجہ نہ کی جائے تو اس کے مضرت رساں اثرات صدیوں اور نسلوں کو متأثر کر جاتے ہیں، اسی مثبت و صالح اور بلند فکر اساس پر حضرت حکیم الاسلامؒ نے اپنے اخلاف کو ہمیشہ یہی نصیحت و وصیت کی کہ ’’اختلاف بات سے ہوتا ہے اور خلاف ذات کے ہوتا ہے‘‘ دارالعلوم دیوبند میں پیش آمدہ یہ قضایات نامرضیہ دراصل  بات اور رائے  سے اختلاف کا نتیجہ ہے لیکن جہاں تک بہر دو جانب معارضین کی ذوات کا تعلق ہے تو اس میں  تفریقی فکر و خیال تو کجا رشتہء قرب کی وسعت کو بحال کرنے اور رکھنے کی متعدد بنیادیں موجود ہیں اور سب  حضرات کے اجتماعی وجود سے ہی جماعت عبارت ہوتی ہے، ۔۔                                                     

                                  چمن میں  اختلاف  رنگ  و بو  سے  بات  بنتی  ہے

                                  تم ہی تم ہو تو تم کیا ہو ہم ہی ہم ہیں تو ہم کیا ہیں

رضا بالقضاء کا تقاضہ یہ ہے کہ پیش آمدہ واقعات میں حضرت حق جل مجدہٗ کی جانب سے پائے جانے والے خیرکے پہلو کو محورِ فکر بنایا جائے، اور جماعت کی شیرازہ بندی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئےکبھی بھی کسی کی ذات کو تنقید کا نشانہ نہ بنایا جائے، اور موقع و محل کے اعتبار سے اس حقیقت کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ  پیش آمدہ واقعات میں تاریخی اعتبار سے تلبیس کرنا مبالغہ کرنا یا کسی ذات و شخصیت کے حوالے سے استخفاف بھی کرنا  اصول اخلاقِ کے منافی  ہے ، انہی صالح روایات پر ادارہ کی عظمت اور جماعت کی شیرازہ بندی کے لئے جہود و کاوش کو جاری رکھا جائے، یقین ہے کہ گذرتے وقت کے ساتھ ان شاءاللہ احوال و مزاج میں تبدیلیاں واقع ہوں گی اور جماعت کا یہ وقتی مگر قابل تشویش بعد جلد یا بہ دیر ایک مرتبہ پھر سرچشمئہ اتحاد بنے گا۔  لہٰذا اس وصیت کی وسیع تر معنویت کو مدنظر رکھتے ہوئے خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی صاحب نوراللہ مرقدہ سابق مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند نے نہ صرف یہ کہ مدت العمر اس کی پاسداری ہی کی بلکہ اخلاص و للہیت کی پائیدار اساس  پرمنتشر جماعت کی شیرازہ بندی کے پاکیزہ ہدف کو مدنظر رکھتے ہوئے  فریقین میں صلح  کی غرض سے ۲۰۰۶ء میں تمام ذاتی اغراض و مفادات اور ظاہری فریب نظرمادی نفع و نقصان سے بالا تر ہو کرحضرت مولانا   محمد سفیان قاسمی صاحب مہتممدارالعلوم وقف دیوبندکی بصیرت مندانہ ومشیرانہ معاونت سےایک فارمولہء صلح کل عمل میں لائے، اور بہر دو جانب نیک نیتی پر مبنی جذبہء اخلاص کے زیر اثر  بحمداللہ وبفضلہ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد مدنی صاحب نوراللہ مرقدہ  سابق صدر جمعیة علمائے ہندنے اس کا پرتپاک و والہانہ خیر مقدم فرماتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ان ناگفتہ بہٖ حالات کے نتیجہ میں پیدا شدہ جماعتی خلیج کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ہی ادا کیا بلکہ بہر دو حضرات اکابر نے اس حقیقت پر اتفاق فرمایا کہ جو کچھ پیش آیا وہ منجانب اللہ تقدیر کا  فیصلہ تھا، لیکن اب جب کہ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند اپنی اپنی جگہ پر ایک مسلّم الثبوت حقیقت کے بطور امت مسلمہ میں متعارف ہیں اور اپنی اپنی جگہ عظمت و شہرت کے منفرد مقام کے  حامل ادارے ہیں تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اختلاف کے بجائے اتفاق کی ایسی وراثت سے کیوں نہ مربوط کر کے جائیں جس میں ہر آنے والی نسل نو  کے لئے یہ  عملی سبق مضمر ہو کہ واقعاتی بنیاد پر اختلافات کتنے ہی گہرے کیوں نہ ہوجائیں لیکن اگر ذاتی اغراض و مفادات سے بالا تر ہو کر اجتماعی مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے اخلاص قلب اور للہیت کے فکری محور پر بحالی احوال کی کوشش و جہود کو بروئے عمل لایا جائے تو پچیس سال کے الجھے ہوئے مسائل کو حل ہونے میں پچیس منٹ بھی نہیں لگتے۔

آج بحمداللہ یہ چشمۂ فیض علم دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند کی شکل میں دو دھاروں میں جاری ہے۔

حق تعالیٰ جل مجدہٗ حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نوراللہ مرقدہٗ بانی دارالعلوم دیوبند کے آفاقی فکر قاسمیت سے وابستہ دونوں اداروں کی شرور و فتن سے حفاظت فرمائیں اور بہر دو جانب اربابِ حل و عقد و وابستگان ادارہ کو اخلاص نیت و قلب کی دولت بے بہا اور اتحاد کےدوامی جذبہ دروں سے ہمیشہ سرفراز فرمائے  رکھیں، آمین یا رب العالمین