• Print

مختصرتعارف درس نظامی


عہد نبوت میں تعلیم کی ابتداء قرآن مجید سے ہوئی، حضرت عمر  کے زمانہٴخلافت میں قرآن مجید کی تعلیم کے ساتھ ساتھ احادیث کی نشرو اشاعت اور درس و تدریس کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا، پھر جوں جوں زمانہ گزرتا گیا اور علمی ضرورتیں بڑھتی رہیں، فنون میں بھی حسب ضرورت اضافہ ہوتا رہا، دوسری صدی ہجری کے وسط تک علوم و فنون، قرآن،حدیث،فقہ اور اشعار عرب میں منحصر تھے، اس کے بعد چوتھی صدی کے آخر تک جو ایجاد وتدوین کا دور کہلاتا ہے اس میں تمدنی ترقی کے ساتھ مختلف فنون کی ایجاد اور ترجمے عمل میں آئے، اور حسب ضرورت بعض فنون کی تعلیم وتدریس بھی ہونے لگی، چنانچہ حدیث، تفسیر،اصول فقہ، صرف و نحو، لغات اشعار عرب اور تاریخ وغیرہ اس زمانے کے علوم کا بھی اضافہ کیا گیا۔
پانچویں اور ساتویں صدی کے درمیان امام غزالی کے ذریعہ علم کلام کی بنیاد پڑی اور اس کی تائید کے لئے مذکورہ علوم  کے علاوہ منطق اور فلسفہ وغیرہ علوم معقولہ بھی اسلامی درسگاہوں کا ضروری جزء بن گئے۔
اگرچہ یہ علوم کم وبیش تمام اسلامی ممالک  میں متداول تھے، تاہم مختلف ممالک میں ملکی ، مقامی اور قومی خصوصیات کا اثر پڑنا بھی ناگزیر تھا۔ ایران میں منطق و فلسفہ کا مذاق غالب تھا اور خراسان وماوراء النہر میں فقہ و اصول فقہ اور تصوف کا زیادہ رواج تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ ایک ہی ملک میں مختلف زمانوں میں ماحول کے اثرات اور گردوپیش کے تقاضوں کے باعث بھی اکثر نصاب میں تغیروتبدل ہوتارہاہے۔ سلطان شہاب الدین غوری ﴿۵۹۷ھ تا 6۰۲ھ﴾ کے عہد میں خراسان اور ماوراء النہر وغیرہ میں تفسیروحدیث کے ساتھ صرف ونحو ، بلاغت، ادب، فقہ، منطق، کلام، اور تصوف معیار فضیلت سمجھے جاتے پھر بھی فقہ و اصول فقہ کو زیادہ اہمیت حاصل تھی، ہندوستان میں آنے والے مسلمان زیادہ تر انہیں ممالک سے تھے، لہذا ان کے رجحانات کا آنا بھی لازمی تھا چنانچہ ہندوستان  میں اس دور کے نصاب تعلیم میں یہ سب علوم داخل اور جزونصاب تھے۔
نویں صدی ہجری کے آخر میں معیار فضیلت کو کسی قدر بلند کرنے کے لئے قاضی عضد الدین کی تصانیف مطالع ومواقف اور علامہ سکاکی کی مفتاح العلوم داخل نصاب کی گئیں۔
اس دور میں میر سید شریف کے تلامذہ نے شرح مطالع اور شرح مواقف اور علامہ تفتازانی کے شاگردوں نے مطول اور مختصر المعانی اور تلویح و شرح عقائد نسفی کو رواج دیا۔ نیز اس زمانہ میں شرح وقایہ اور شرح جامی داخل نصاب کی گئیں۔ اس دور کے آخر میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے علماء حرمین شریفین سے علم حدیث کی تکمیل کرکے علم حدیث کو فروغ دینے کی کوشش کی، ان کے بعد ان کے فرزند شیخ نورالحق نے بھی مگر کامیابی نہ ہوسکی۔ ایک بار پھر معیار فضیلت کو بلند تر کرنے کے لئے میر فتح اللہ جو شیراز سے ہندوستان آئے تھے، انہوں نے کچھ جدید اضافے کئے جس کو علماء نے فورا قبول کرلیا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی علیہ الرحمة جو اس دور کے سب سے زیادہ نامور عالم تھے ، حرمین شریفین گئے اور شیخ ابوطاہر کردی علیہ الرحمة سے علم حدیث کی تکمیل کی، اور ہندوستان آکر اس سرگرمی سے اس کی اشاعت کی کہ جس کے اثرات آج تک باقی ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے اخلاف نے صحاح ستہ کے درس و تدریس کو اپنی سعی وکوشش سے جزونصاب بنادیا۔
بارہویں صدی ہجری میں حضرت شاہ صاحب کے ہم عصر  حضرت ملا نظام الدین سہالوی علیہ الرحمة  نے نصاب سابق میں اضافہ کرکے ایک نیا نصاب مرتب کیا جو مدارس عربیہ میں آج درس نظامی کے نام سے رائج ہے۔ اس نصاب کی سب سے بڑی خصوصیت طالب علم میں امعان نظر اور قوت مطالعہ پیداکرناہے۔گو اس نصاب کی تحصیل کے بعد  کسی مخصوص فن میں کمال حاصل نہیں ہوجاتا، مگر یہ صلاحیت ضرور پیدا ہوجاتی ہے کہ محض اپنے مطالعہ اور محنت سے جس فن میں چاہے کمال پیدا کر لے۔
تیرہویں صدی کے وسط میں ہندوستان میں علم کے تین مراکز قائم تھے، دہلی، لکھنؤ اور خیرآباد۔ گو نصاب تعلیم تینوں کا قدرے مشترک تھا تاہم تینوں کے نقطہ ہائے نظر مختلف تھے۔ دہلی میں تفسیر وحدیث پرزیادہ توجہ دی جاتی تھی؛ حضرت شاہ صاحب کا خاندان اس میں ہمہ تن مشغول تھا۔ لکھنؤ میں فقہ و اصول فقہ کو سب سے زیادہ اہمیت دی جاتے اورتفسیر میں جلالین وبیضاوی اور حدیث میں صرف مشکوة المصابیح کافی سمجھی جاتی تھی۔ خیرآباد میں علمی موضوع صرف منطق وفلسفہ تھا۔ اور یہ علوم اس قدر اہتمام سے پڑھائے جاتے تھے کہ جملہ علوم کی تعلیم ان کے سامنے ماند پڑگئی تھی۔
دارالعلوم  وقف دیوبند کے نصاب تعلیم میں ان تینوں مقامات کی خصوصیات کو جمع کردیاگیاہے، جو ایک صدی سے زائد عرصہ سے اکثر مدارس میں مروج ہے۔  اس کے باوجود جس طرح ہرزمانے میں حالات کے تقاضوں کے مطابق نصاب تعلیم میں تغیہروتبدل ہوتا رہاہے  اسی طرح دارالعلوم  وقف دیوبندکے نصاب میں بھی حالات کے تقاضے کے مطابق حذف واضافہ ہوتارہاہے۔اس کو مفید تر بنانے کے لئے جس میں علوم دینیہ کے ساتھ علوم عصریہ اور معاشی ضرورتوں کا بھی لحاظ رکھا گیا ہے۔  نصاب کی تکمیل کے بعد اگر طالب علم کسی خاص فن میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے  تخصصات  کے متعلقہ شعبہ میں داخلہ لے کر اپنی تعلیم جاری رکھ سکتا ہے۔