• Print

اصول ہشتگانہ


آئین دارالعلوم 

جب دارالعلوم دیوبند کا قیام عمل میں آیا اس وقت  پرانے مدرسے تقریبا ًناپید ہوچکے تھے۔دو چار مدرسے جوحالات کی گرفت سے بچ گئے تھے، ان کی بھی حیثیت تاریک رات میں جگنو سے زیادہ کی نہیں تھی۔ بظاہر ایسا لگتاتھا کہ ہندوستان سے اسلامی علوم کا خاتمہ ہوچکا ہے۔  ان حالات میں حجۃ الاسلام محمد قاسم النانوتوی  اور ان کے خدا ترس اصحاب نےاپنی فکری بصیرت سے  آنے والے خطرات کو محسوس کرلیا ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کسی بھی قوم کی ترقی صرف اور صرف تعلیم ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ لہذا سرکاری امدادسے آزاد ہوکر  ان حضرات نے عوامی چندے اور تعاون سے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد ڈالی۔  دارالعلوم اور دیگر دینی مدارس کےلئے حجۃ الاسلام محمد قاسم النانوتوی ؒ نے جو اصول وضع کئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ  دارالعلوم  کو توکل علی اللہ اور عوامی چندے سے چلایا جائےاور اس کے لئے خاص طور پرغریب طبقہ کی طرف رجوع کی جائے۔

اس دستور العمل میں حجۃ الاسلام الامام محمد قاسم النانوتوی  نےبتلایا ہے کہ دینی مدارس کے قیام کی بنیادان مندرجہ ذیل اصولوں پر ہونی چاہئے:۔ 

 (۱)  اصل اول یہ ہے کہ تامقدور کارکنان مدرسہ کو ہمیشہ تکثیر چندہ پر نظر رہے، آپ کوشش کریں ، اوروں سے کرائیں، خیر اندیشان مدرسہ کو یہ بات ہمیشہ ملحوظ رہے۔ 

(۲)  ابقائے طعامِ طلبہ بلکہ افزائش طلبہ میں جس طرح ہوسکے خیراندیشان مدرسہ ہمیشہ کوشاں رہیں۔

(۳)  مشیران مدرسہ کو ہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اور خوش اسلوبی ہو، اپنی رائے پر اصرار نہ ہو، خدانخواستہ جب اس طرح کی نوبت آئیگی کہ اہل مشورہ کو اپنی مخالفت رائے اور اوروں کی رائے کے موافق ہونا ناگوار ہو تو پھر اس مدرسہ کی بنیاد میں تزلزل آجائے گا۔ القصہ تہ دل سے بروقت مشورہ اور نیز اس کے پس و پیش میں اسلوبی مدرسہ ملحوظ رہے، سخن پروری نہ ہو، اور اس لئے ضروری ہے کہ اہل مشورہ اظہارِ رائے میں کسی وجہ سے متأمل نہ ہوں اور سامعین بنیت نیک اس کو سنیں، یعنی یہ خیال رہے کہ اگر دوسرے کی بات سمجھ میں آجائے گی تو اگرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہوبدل و جان قبول کریں گے، اور نیز اسی وجہ سے ضرور ہے کہ مہتمم امور مشورہ طلب میں اہل مشورہ سے ضرور مشور ہ کیا کرے، خواہ وہ لوگ ہوں جو ہمیشہ مشیر مدرسہ رہتے ہیں یا کوئی وارد و صادرجو علم و عقل رکھتا ہو اور مدرسوں کا خیر اندیش ہو، اور نیز اس وجہ سے ضرور ہے کہ اگر اتفاقاً کسی وجہ سے اہل مشورہ سے مشورے کی نوبت نہ آئے اور بقدر ضرورت اہل مشورہ کی مقدار معتد بہ سے مشور کیا گیا ہو تو پھر اس وجہ سے ناخوش نہ ہو کہ مجھ سے کیوں نہ پوچھا، ہاں اگر مہتمم نے کسی سے نہ پوچھا تو پھر اہل مشورہ معترض ہوسکتا ہے۔ 

(۴)  یہ بات بہت ضروری ہے کہ مدرسین مدرسہ باہم متفق المشرب ہوں اور مثل علماء روزگار خودبین اور دوسروں کے درپئے توہین نہ ہوں ، خدانخواستہ جب اس کی نوبت آئے گی تو پھر اس مدرسہ کی خیر نہیں۔ 

(۵)  خواندگی مقررہ جو اس انداز سے جو پہلے تجویزہوچکی ہے یا بعد میں کوئی اور انداز مشورہ سے تجویز ہو پوری ہوجایا کرے، ورنہ یہ مدرسہ اول تو خوب آباد نہ ہوگا اور اگر ہوگا تو بے فائدہ ہوگا۔ 

(۶)  اس مدرسہ میں جب تک آمدنی کی کوئی سبیل یقینی نہیں جب تک یہ مدرسہ ان شاء اللہ بشرط توجہ الی اللہ اسی طرح چلے گا، اور اگر کوئی آمدنی ایسی یقینی حاصل ہوگئی جیسے جاگیر یا کارخانہء تجارت یا کسی امیرمحکم القول کا وعدہ تو پھر یوں نظر آتا ہے کہ یہ خوف و رجا جو سرمایہ رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور امداد غیبی موقوف ہوجائے گی اور کارکنوں میں باہم نزاع پیدا ہوجائے گا، القصہ آمدنی اور تعمیر وغیرہ میں ایک نوع کی بے سروسامانی ملحوظ رہے۔

(۷)  سرکار کی شرکت اور امراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے۔

(۸)  تامقدور ایسے لوگوں کا چندہ زیادہ موجب برکت معلوم ہوتا ہے جن کو اپنے چندے سے امید ناموری نہ ہو، بالجملہ حسن ادب اہل چندہ زیادہ پائیداری کا سامان معلوم ہوتا ہے۔

ان اصول ثمانیہ کی نہایت ہی بلیغ تشریح حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ  (سابق مہتمم)نے فرمائی ہے، جو ایک مستقل پمفلٹ میں بنام "آزادئ ہند کا خاموش رہنما" شائع ہوچکی ہے۔ اس دستور العمل کی پہلی، دوسری، اور چھٹی ، ساتویں اور آٹھویں دفعہ میں واضح طور پر عوامی چندے کو اوقاف کا بدل تجویز کیا گیاہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی پورا زوردیاگیا ہے کہ آمدنی کے یقینی ذرائع سے احتراز کرنا ضروری ہے، ورنہ خوف و رجا جو اصل سرمایہء رجوع الی اللہ ہے ہاتھ سے جاتا رہے گا۔