• Print

شیخ الاسلام امام المحدثین، علامہ انورشاہ الکشمیری نوراللہ مرقدہ

المتوفیٰ ۱۳۵۲ھ


ابتدائی حالات  اور تعلیم
انور شاہ ایک عظیم محدث
فیض الباری: تقریرِصحیح بخاری چار جلدوں میں
رشید رضا مصری اور علامہ اقبال کا مولانا انور شاہ کشمیری ؒ سےگہرا ربط
امام المحدثین کے بارے میں  علماء اکابرکا اظہار خیال

ابتدائی زندگی اور تعلیم

حضرت مولانا انورشاہ  صاحب ؒ کشمیر کے رہنے والے تھے،شاہ صاحب کا قد درمیانہ، رنگ سفید، خوبصورت خدوخال،پیشانی  کشادہ اور آنکھیں مقناطیسی کشش رکھتی تھیں۔
۲۷/شوال ۱۲۹۲ھ مطابق ۱۸۷۵ء کو سادات کے ایک معزز علمی خاندان میں آپ کی ولادت ہوئی، یہ خاندان اپنے علم و فضل کے لحاظ سے کشمیر بھر میں ممتاز خاندان سمجھا جا تا ہے، ساڑھے چار سال کی عمر میں اپنے والد بزرگوار مولانا سیدمعظم علی شاہ ؒ سے قرآن مجید شروع کیا، غیر معمولی ذہانت و ذکاوت اور بے مثل قوت حافظہ ابتدائے عمر سے موجود تھی، چنانچہ ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں کتاب اللہ کے ساتھ فارسی کی چند ابتدائی کتابیں ختم کرکے علوم متداولہ کی تحصیل میں مشغول ہوگئے، ابھی بمشکل ۱۴ سال کی عمر تھی کہ حصول علم کے جذبۂ بے پایاں نے ترک وطن پر آمادہ کردیا، تقریباً تین سال ہزارہ کے مدارس میں رہ کر مختلف علوم و فنون میں دستگاہ حاصل کی، مگر دیوبند کی شہرت نے مزید تکمیل کے لئے بے چین بنادیا۔
چنانچہ ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۸۹۳ء میں دیوبند تشریف لائے، حضرت شیخ الہندؒ مسند صدارت پر نیز مسند درس پرمتمکن تھے، استاد نے شاگرد کواور شاگرد نے استاد کو پہلی ہی ملاقات میں پہچان لیا۔ کتب موقوف علیہ کے بعد حدیث و تفسیر کی کتابیں شروع کیں اور چند ہی سال میں دارالعلوم میں شہرت و مقبولیت کے ساتھ ایک امتیازی شان حاصل کرلی، ۱۳۱۴ھ مطابق ۱۸۹۶ء میں حدیث و تفسیر اور فنون کی اعلی کتابوں سے فارغ ہوکر آپ حضرت امام ربانی مولانا رشید احمد گنگوہی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سند حدیث کے علاوہ باطنی فیوض سے بھی مستفیض ہوئے۔
دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ نے مدرسہ امینیہ دہلی میں کچھ دنوں فرائض تدریس انجام دئے، ۱۳۲۰ھ مطابق۱۹۰۳ء میں کشمیر چلے گئے، وہاں اپنے علاقہ میں فیض ِ عام کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا، ۱۳۲۳ھ مطابق ۱۹۰۵ء میں حج بیت اللہ کے لئے تشریف لے گئے، کچھ مدت تک حجاز میں قیام رہا، اور وہاں کے کتب خانوں سے استفادہ کا موقع ملا، ۱۳۲۷ھ مطابق ۱۹۰۹ء میں آپ دیوبند تشریف لائے، حضرت شیخ الہندؒ نے آپ کو یہاں روک لیا، ۱۳۳۳ھ تک بغیر مشاہرہ کے کتب حدیث کے درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے، ۱۳۳۳ھ مطابق ۱۹۱۵ء کے اواخر میں جب شیخ الہند نے سفر حجاز کا قصد کیا تو اپنی جانشینی کا فخرشاہ صاحب کو بخشا، دارالعلوم کی مسند صدارت پر تقریباً۱۲ سال تک جلوہ افروز رہے،  ۱۳۴۶ مطابق ۱۹۲۷ء  میں اہتمام دار العلوم سے بعض اختلافات کے باعث آپ فرائض صدارت سے دست کش ہوکر مغربی ہندوستان  کے مدرسہ ڈابھیل میں تشریف لے گئے اور ۱۳۵۱ھ مطابق ۱۹۳۲ء تک وہاں درس حدیث کا مشغلہ جاری رہا۔

انور شاہ محدث کبیر

اگر حضرت شیخ الہندؒ نے دارالعلوم کا غلغلہ چاردانگ عالم میں بلند کیا، تو حضرت شاہ صاحبؒ نے دارالعلوم کی مسند تدریس پر رونق افروز ہوکر عالمِ اسلام کو علم دین کی روشنی سے منور کردیا، علم حدیث میں وہ عدیم النظیر محدث تھے، علوم فقہ میں فقیہ اعظم، اتباع شریعت میں صلحائے سلف کا نمونہ تھے، تو معرفت الہٰی میں جنیدِ وقت اور شبلئ عصر، ان کا وجود شریعت کے لئے بھی موجب تقویت تھا اور طریقت کے لئے بھی وجہ ٔ نازش، امام ربانی  مولانا رشید احمدگنگوہیؒ سے شرفِ خلافت حاصل کیا تھا۔
اسلامی دنیا نے اس قدر وسیع العلم اور باعمل علماء بہت کم پیدا کئے ہیں، حضرت شاہ صاحبؒ  اگر ایک طرف اپنے معاصرین میں تبحّر علمی کے لحاظ سے عدیم النظیر تھے تو دوسری جانب زہد و تقوی میں بھی ان کی ذات بے مثل تھی، وہ ایک باکمال مفسر، محدث اور فلسفی تھے، آدمی میں ایک کمال کا ہونا بھی کم نہیں ہوتا، مگر ان کی دستار کمال میں متعدد لعل آویزاں تھے، حقیقت یہ ہے کہ ان کے وجود سے علمی دنیا میں ایک انقلاب پیدا ہوگیا تھا، تشنگان علوم کی جس کثیر تعداد نے اس بحر العلوم سے سیرابی حاصل کی وہ اپنی مثال  آپ ہے، مشرق وسطیٰ سے لیکر چین تک ان کے فیضان ِ علم کا سیلاب موجیں مارتا رہا، اور ہند و بیرون ہند کے ہزاروں تشنگان علوم نے اس سے اپنی پیاس بجھائی، غیر منقسم ہندوستان، عرب، ایران، عراق، افغانستان، چین، مصر، جنوبی افریقہ، انڈونیشیا اور ملیشیا میں بکثرت آپ کے تلامذہ پھیلے ہوئے ہیں، دارالعلوم میں آپ کے زمانۂ قیام میں ۸۰۹ طلباء نے دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی۔

حضرت شاہ صاحب کو قدرت کی جانب سے حافظہ ایسا عدیم النظیر بخشاگیا تھا کہ ایک مرتبہ کی دیکھی ہوئی کتاب کے مضامین و مطالب تو درکنارعبارتیں تک مع صفحات و سطور کے یاد رہتی تھیں، جو بات ایک مرتبہ کان یا نگاہ کے راستے سے دماغ میں پہونچ گئی وہ ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوجاتی تھی، اور دوران تقریر بے تکلف حوالے پر حوالےدیتے چلے جاتے تھے، اسی کے ساتھ مطالعہ کا اس قدر شوق تھا کہ جملہ علوم کے خزانےان کے دامن جستجو کی وسعتوں کو مطمئن اور تشنگئ علم کو سیراب نہ کرسکتے تھے، کثرت مطالعہ اور قوت حافظہ کے باعث گویا ایک متحرّک و متکلم کتب خانہ تھے، صحاح ستہ کے علاوہ حدیث کی اکثر کتابیں تقریباً بر نوکِ زبان تھیں، تحقیق طلب مسائل جن کی جستجو اور تحقیق میں عمریں گزرجاتی ہیں، سائل کے استفسار پر چند لمحوں میں اس قدر جامعیت کے ساتھ جواب دے دیتےتھےکہ اس موضوع پر سائل کو نہ تو شبہ باقی رہتا تھااور نہ کتاب دیکھنے کی ضرورت، پھر مزید لطف یہ کہ کتابوں کے ناموں کے ساتھ صفحات و سطور تک کا حوالہ بھی بتلادیا جاتا تھا۔وہ ہر ایک علم و فن پر اس طرح برجستگی کے ساتھ تقریر فرماتے تھے کہ گویا ان کو تمام علوم مستحضر ہیں، دوران تقریر بے شمار کتابوں کے حوالے بلا تکلف دیتے چلے جاتے تھے، حتیٰ کہ اگر کسی کتاب کے پانچ پانچ اور دس دس حواشی ہوتے تو ہر ایک کی عبارت بقید صفحہ و سطر یاد ہوتی تھی، احادیث کا تمام ذخیرہ اور ان کی صحت و عدم صحت کے متعلق طویل و عریض بحثیں، روات کے مدارج و مراتب برنوک زبان تھے، مشہور و معروف کتب خانوں کے اکثر مخطوطات نظر سے گزرچکے تھے، اور اس طرح حافظہ میں موجود تھے کہ گویا آج ہی ان کا مطالعہ کیا ہے۔
پھر مطالعہ محض علوم شرعیہ تک ہی محدود نہ تھا بلکہ جس فن کی بھی کتاب ہاتھ آتی اس کا شروع سے آخر تک ایک مرتبہ مطالعہ ضرور فرما لیتے تھے اور جب کبھی اس کے متعلق بحث چھڑجاتی تو اس کتاب کے مندرجات کو اس طرح حوالوں کے ساتھ بیان فرمادیتے تھے کہ سننے والے حیران و ششدر رہ جاتے، ایک مرتبہ کسی شخص نے علم جَفَر کے مشکل ترین مسائل حل کرنے کے لئے پیش کئے، شاہ صاحبؒ نے حسب معمول برجستہ جوابات کے ساتھ متعدد کتب کے حوالے دے کر بتلادیا کہ فلاں فلاں کتابوں کی جانب رجوع کیا جائے۔
شاہ صاحبؒ کا حافظہ غضب کا تھا، شیخ ابن ہمام کی مشہور کتاب فتح القدیر جو آٹھ ضخیم جلدوں میں ہے اس کا مطالعہ ۲۰ دن میں اس طرح کیا تھا کہ فتح القدیر کی کتاب الحج کی تلخیص بھی ساتھ ساتھ کرتے گئے تھے، اور ابن ہمام نے صاحبِ ہدایہ پر جو اعتراضات کئے ہیں ان کے جوابات بھی لکھتے گئے، دوران درس میں ایک مرتبہ فرمایا کہ اب سے ۲۶ سال پہلے میں نے فتح القدیر کا مطالعہ کیا تھا، بحمد اللہ اب تک دوبارہ دیکھنے کی ضرورت پیش نہیں آئی، اور آج بھی اس کا جو مضمون اور بحث پیش کروں گا اگر تم مراجعت کروگے تو تفاوت بہت کم پاؤگے۔یہ ایک واقعہ ہے، اس طرح کے واقعات ان کی زندگی میں بے شمار ہیں۔

 

فیض الباری: تقریرِصحیح بخاری چار جلدوں میں

غرض کہ علوم تفسیر و حدیث اور فقہ کی جس قدر خدمات آپ نے انجام دیں وہ آپ اپنی مثال ہیں، متعدد معرکۃ الآراء مسائل پر کتابیں بھی تصنیف فرمائی ہیں، درسِ حدیث کی تقریر کی جامعیت کا اندازہ 'فیض الباری' سے کیا جاسکتا ہے، جو صحیح بخاری کی تقریر ہےاور چار ضخیم جلدوں میں شائع ہے، درایت میں زبردست کمال حاصل تھا، دو مختلف و معارض اقوال میں اپنی قوت استنباط کے زور سے بلاتکلف ایک کو دوسرے پر ترجیح دیدیتے تھے،
علوم نقلیہ و عقلیہ کے علاوہ علم تصوف پر بھی ان کی نظر مبصرانہ تھی، مولانا سید سلیمان ندویؒ نے شاہ صاحب کی وفات پر 'معارف' میں لکھا تھا:
"ان کی مثال اس سمندر کی سی تھی جس کی اوپر کی سطح ساکن  لیکن اندر کی سطح موتیوں کے گراں قدر خزانوں سے معمور ہوتی ہے، وہ وسعت نظر، قوت حافظہ اور کثرت حفظ میں اس عہد میں بے مثال تھے، علوم حدیث کے حافظ و نکتہ شناس، علومِ ادب میں بلند پایہ، معقولات میں ماہر، شعروسخن سے بہرہ منداور زہدوتقویٰ میں کامل تھے، مرتے دم تک علم و معرفت کے اس شہید نے قال اللہ و قال الرسول کا نعرہ بلند رکھا۔"

رشید رضا مصریؒ اور علامہ اقبالؒ کا حضرت شاہ صاحبؒ سے تعلق

مصر کے مشہورِ زمانہ عالم سید رشید رضا جب دیوبند تشریف لائے اور شاہ صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی تو بےساختہ بار بار کہتے تھے کہ میں نے اس جلیل القدر استاد جیسا کوئی عالم نہیں دیکھا۔علامہ اقبال مرحوم کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسلام سے جو شغف پیدا ہوگیا تھا، اس میں شاہ صاحبؒ کے فیضانِ صحبت کو بھی بڑا دخل حاصل تھا، علامہ موصوف نے اسلامیات میں شاہ صاحب سے بہت کچھ استفادہ کیا تھا، چنانچہ علامہ اقبال مرحوم آپ کا بے حد احترام کرتے تھے اور عقیدت و محبت کے جذبات کے ساتھ شاہ صاحب کی رائے کے آگے سر تسلیم خم کردیتے تھے۔ علامہ اقبال مرحوم کو حضرت شاہ صاحب سے بڑا تعلق تھا، اور اکثر علمی مباحث میں ان سے رجوع کرتے تھے، ان کا خیال تھا کہ اسلامی مسائل کی تدوین جدید کے لئے شاہ صاحب سے بہتر کوئی دوسرا شخص نہیں ہے۔
بہر حال دارالعلوم کی یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت شیخ الہند کے بعد صدارت تدریس کا کام آپ کے سپرد ہوا، بقول مولانا سید مناظر احسن گیلانی آپ کے زمانے میں طلباء کی استعداد میں بڑا انقلاب ہوا اور اچھے اچھے مستعد طلباء آپ کے حلقۂ درس سے مستفید ہوکر اٹھے۔
ملکی سیاست میں شاہ صاحبؒ اپنے استاد حضرت شیخ الہندؒ کے مسلک کے پیرو تھے، مسلمانانِ ہند میں صحیح اسلامی زندگی پیدا کرنا علماء کا اولین فریضہ سمجھتے تھے ، جمعیۃ العلماء ہند کے آٹھویں سالانہ اجلاس منعقدہ پشاور کا بصیرت افروز خطبہ ٔ صدارت اس کا روشن ثبوت ہے۔
علمی ذوق کا طبیعت پر اس قدر غلبہ تھا کہ عرصہ تک نکاح اور متأہلانہ زندگی سے گھبراتے رہے، مگر بالآخر بزرگوں کے شدید اصرار سے متاہلانہ زندگی اختیار فرمالی تھی،اور اس کے بعد تنخواہ لینے لگے تھے، ڈابھیل میں چندسال قیام فرمالینے کے بعد آخر میں امراض کی شدت سے مجبور ہوکر دیوبند جس کو آپ نے اپنا وطن ِ اقامت بنالیاتھا چلے آئے تھے، اور یہیں ۳/صفر المظفر ۱۳۵۲ھ مطابق ۱۹۳۳ء کو ۶۰ سال کی عمر میں رحلت فرمائی، قبر مبارک عیدگاہ کے قریب ہے۔

امام المحدثین کے بارے میں علماء اکابر کا اظہار خیال

نفحۃ العنبر کی تقریظ میں حضرت امام المجددین اشرف علی تھانویؒ نے لکھا ہے : "میرے نزدیک اسلام کی حقانیت کی بہت سی دلیلوں میں سے ایک دلیل حضرت مولانا انورشاہ کشمیریؒ کا وجود بھی ہے، اگر اسلام میں کوئی کجی ہوتی تو مولانا انور شاہؒ یقیناً اسلام کو ترک کردیتے۔"
حضرت شاہ صاحب کی وفات پر شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے تعزیتی تقریر میں فرمایا تھا کہ: "مجھ سے مصروشام کا کوئی آدمی اگر پوچھتا کہ کیا تم نے حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ شیخ تقی الدین بن دقیق العیدؒ اور سلطان العلماء شیخ عز الدین بن عبد السلام کو دیکھا ہے تو میں استعارہ کر کے کہہ سکتا تھا کہ  ہاں دیکھا ہے، کیونکہ صرف زمانے کا تقدم و تأخر ہے، اگر شاہ صاحبؒ بھی چھٹی یا ساتویں صدی ہجری میں ہوتے تو ان خصوصیات کے حامل ہونے کی وجہ سے ان کے ہی مرتبہ میں ہوتے۔"
مختلف اسلامی مباحث پر عربی اور فارسی میں ایک درجن سے زائد تصانیف جو نہایت معرکۃ الآراء مسائل پر مشتمل ہیں زیورِ طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں، اور ان سے کہیں زیادہ کتابیں طباعت کی منتظر ہیں۔
مولانا محمد یوسف بنوریؒ نے نفحۃ العنبر  میں حضرت شاہ صاحبؒ کے تفصیلی حالات لکھے ہیں، یہ کتاب عربی میں ہے، دوسری کتاب حیاتِ انور ہے یہ اردو میں ہے، حیاتِ انور مختلف حضرات کے مضامین کا گراں قدر مجموعہ ہے، الانوراور نقش دوام بھی اچھی سوانح حیات ہیں۔