Ref. No.2842/45-4482
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ جو زمین آپ نے تجارت کے مقصد سے خریدی ہے، اس پر زکوٰۃ واجب ہے، اور اس میں جو کچھ پیداوار ہوگی اس کی مالیت پر بھی زکوۃ کا حساب ہوگا۔ ہر سال اس کی جو قیمت بڑھتی رہتی ہے ، اس کو دیکھاجائے گا، حکومت کا طے کردہ قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ اس علاقہ میں لوگوں کے درمیان اس زمین کی جو مالیت اور قیمت ہو گی اس کا اعتبار کرتے ہوئے زکوۃ نکالی جائے گی۔ اگر گذشتہ سالوں کی زکوۃ آپنے ادانہیں کی ہے تو ہر سال کا حساب کرکے زکوۃ نکالنی لازم ہے۔
ومن اشترى جارية للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة) لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة) لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر.(فتح القدير،كتاب الزكاة،ج:2،ص:168)
ولو اشترى الرجل دار أو عبداً للتجارة ثم أجره يخرج من أن يكون للتجارة لأنه لما آجره فقد قصد المنفعة.(فتاوى قاضي خان،فصل في مال التجارة،ج:1،ص:155)
ولو اشترى قدورا من صفر يمسكها ويؤاجرها لا تجب فيها الزكاة كما لا تجب في بيوت الغلة.(الفتاوى الهندية،مسائل شتى في الزكاة،ج:1،ص:180)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند