Ref. No.2843/45-4481
بسم اللہ الرحمن الرحیم:۔ دلال اگرکسی کا کوئی کام کراتا ہے اور اس کام پر معاوضہ طے کرلیتا ہے تو اس پر وہ طے شدہ معاوضہ لے سکتا ہے جس کو دلالی کی اجرت کہاجاتاہے، بشرطیکہ کام جائز ہو اور دلال کی جانب سے محنت و عمل بھی پایا جائے۔اس لئے دلالی کی اجرت جائز ہے، البتہ اگر دلال جھوٹ اور مکروفریب سے کام لیتاہے تو اس کا وبال اس پر ہوگا اور وہ ان ناجائز امور کا مرتکب ہونے کی بناء پر گنہگار ہوگا۔ سوال میں مذکور باتیں اگر درست ہیں اور مبنی بر حقیقت ہیں تو ایسا شخص فاسق ہےاور اس کے پیچھے نماز مکروہ ہے۔
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام."(رد المحتار كتاب الاجارة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)
"كره إمامة "الفاسق" العالم لعدم اهتمامه بالدين فتجب إهانته شرعا فلا يعظم بتقديمه للإمامة وإذا تعذر منعه ينتقل عنه إلى غير مسجده للجمعة وغيرها وإن لم يقم الجمعة إلا هو تصلى معه"۔ (حاشیۃالطحطاوی، کتاب الصلاۃ، فصل فی بیان الأحق بالإمامة، ص:303، 304، ط:دار الکتب العلمیة)
واللہ اعلم بالصواب
دارالافتاء
دارالعلوم وقف دیوبند